لنڈی کوتل سیاحوں کا مرکز کیوں؟ سدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

لنڈی کوتل سیاحوں کا مرکز کیوں؟ سدھیر احمد آفریدی

0

        اس بات پر لوگ بہت خوش ہیں کہ قبائلی علاقوں میں نسبتاً امن کی فضاء قائم ہے اور لنڈیکوتل میں تو مکمل طور پر امن و امان قائم ہے جسے اللہ نظر بد سے بچائیں جہاں امن نہ ہو وہاں خوشحالی اور ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ضلع خیبر کی یہی لنڈیکوتل تحصیل ہے جہاں جب امن خراب تھا تو یہاں کے سرمایہ دار لوگوں نے سر و مال بچانے کے لئے یہاں سے ہجرت کی اور مختلف علاقوں میں جاکر اپنا کاروبار شروع کیا اور ان سرمایہ دار لوگوں کے لنڈیکوتل سمیت دیگر قبائلی علاقوں سے ہجرت کے پیچھے یہ سوچ و فکر بھی کارفرما تھی کہ چونکہ قبائلی علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات ناپید ہیں اور مستقبل میں بھی بنیادی انسانی حقوق اور سہولیات کی کوئی امید نظر نہیں آرہی اس لئے انہوں نے اسی میں بھلائی دیکھی کہ وہ اپنے آبائی قبائلی علاقوں سے کوچ کر جائیں لیکن اب الحمد اللہ کم از کم امن و امان کی صورتحال کافی بہتر ہے اور رمضان کے گزرے ہوئے بابرکت مہینے میں دیکھ لیا کہ ساری رات نوجوان نماز تراویح کے بعد سڑکوں پر چہل قدمی کرتے رہے تمام قبائلی علاقوں میں لنڈی کوتل ایک تاریخی حیثیت کی حامل ہے اگرچہ دیگر قبائلی علاقوں کی طرح یہاں بھی ترقی کے آثار دکھائی نہیں دیتے بے آب و گیاہ علاقہ ہے لیکن ایک تو لنڈی کوتل کا موسم الحمد اللہ ہر وقت سہانا رہتا ہے کوئی زندگی گرمی یہاں نہیں ہوتی اور سخت گرمی کے موسم میں بھی سولر کا پنکھا لگا ہو تو بھی گزارا ہوتا ہے یہاں کا پانی بھی اپنی مثال آپ ہے اور علاقے کی تاریخی حیثیت کی طرح اس علاقے کے لوگوں کی مہمان نوازی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں پورے ملک میں چونکہ کورونا کی وباء پھوٹ پڑی ہے جس کی روک تھام کے لئے حکومت نے ایس او پی پر عملدرآمد کروانے اور لاکھ ڈاؤن کے ذریعے عام لوگوں کی نقل و حمل محدود کر دی ہے اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے سیاحتی مقامات اور ان کو جانے والے تمام راستے بند کرکے سیاحوں کی آمدورفت پر سختی سے پابندی عائد کر دی ہے اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ چونکہ کالام، کاغان، ناران اور مری پشاور اور دیگر علاقوں کے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کے لئے دور پڑتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کے لئے لنڈیکوتل واحد آپشن رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مختلف علاقوں سے سیاحوں نے درہ خیبر کا رخ کر دیا جمرود کے باب خیبر سے لیکر طورخم تک شاہراہ اور پہاڑوں کے اوپر تاریخی مقامات ہیں جن میں قابل زکر جمرود فورٹ ہے جو کہ سکھوں کی یادگار ہے اس طرح انگریز دور کے بنائے ہوئے سرنگ، ریل کی پٹڑی اور قلعے جگہ جگہ دکھائی دیتے ہوئے اسی طرح علی مسجد کا مقام اور وہاں مسجد اپنی ایک تاریخ رکھتی ہیں اور اسی علاقے سے افغانستان اور تیراہ کے پہاڑوں سے جو قدرتی پانی کے چشمے بہتے ہیں وہ اسی علاقے میں نمودار ہو کر بہتے ہیں جس کو دیکھ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس پانی کو پیا جائے اور تھوڑی دیر کے لئے اس بہتے ہوئے چشمے کے وافر مقدار میں صاف پانی میں نہایا جائے گرمی کے دنوں میں علی مسجد غار اوبہ میں عام مقامی لوگوں اور سیاحوں کا ہجوم موجود رہتا ہے اور اب تو پکنک منانے والوں اور سیاحوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مقامی لوگوں نے وہاں خیبر ہیلز کے نام سے ایک ریسٹورنٹ قائم کیا ہے اور سیاحوں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کے لئے مناسب انتظامات کئے ہیں جہاں ہر کوئی چند لمحے سکون کے ساتھ گزار سکتے ہیں۔

یہاں سے جاتے ہوئے درہ خیبر پر پڑانگ سم چیک پوسٹ سے آگے خیبر ذخہ خیل آفریدی قبیلے کی حدود شروع ہوتی ہیں جہاں پھر بڑے بڑے سنگ لاخ پہاڑ دکھائی دیتے ہیں اور انہی پہاڑوں کے دامن اور بیچ میں ذخہ خیل قبیلہ آباد ہے جن کی مہمان نوازی اور امن پسندی کی وجہ سے اس علاقے کو ایک تاریخی حیثیت اور اہمیت ملی ہے خیبر کے علاقے میں بدھ مت کا سٹوپہ اپنی ایک تاریخ رکھتی ہے اس سے تھوڑا آگے جاکر حاجی ایوب آفریدی کا بنایا ہوا قلعہ نما اور وسیع ترین گھر،حجرہ اور باغات قابل دید ہیں جن کو دیکھنے کے لئے ہر سیاح بے تاب رہتا ہے درہ خیبر پر قائم مارکیٹوں کی وجہ سے مقامی ، غیر مقامی لوگوں اور ٹرانسپورٹرز کو تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور راستے میں کسی کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہو سکتی یہ شاہراہ مقامی لوگوں کی امن پسندی اور مہمان نوازی کی وجہ سے محفوظ ہے حالانکہ اس شاہراہ پر جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم ہیں لیکن بمشکل پولیس کو گشت کرتے ہوئے کسی نے دیکھا ہے خیبر کی حدود سے نکل کر چاروازگئی کے مقام سے شینواری قبیلے کی حدود شروع ہوتی ہیں ایک راستہ مشہور پشتو شاعر اور بابائے غزل امیر حمزا خان شینواری کا مزار ہے۔اوپر یہ ذکر کرنا بھول گیا کہ باب خیبر جمرود سے تھوڑا آگے جاکر ٹیڈی بازار کے دوسرے کونے پر پشتو کے مشہور شاعر اور ادیب خیبر آفریدی کا مزار شاہراہ کے بائیں جانب دکھائی دیگا اور خیبر ذخہ خیل میں حاجی ایوب آفریدی اور ممتاز قبائلی ملک مرحوم نادر خان ذخہ خیل کے گاؤں کے درمیان قبرستان میں عشقیہ شاعری کے لئے مشہور شاعر خاطر آفریدی کا مزار ہے جس کو دیکھنے کے لئے سیاح اور خاص طور پر شاعری کا ذوق رکھنے والے افراد حاضری دیتے ہیں جبکہ زیادہ تر لوگ حاجی گلاب مرحوم کے نام سے منسوب گراؤنڈ میں قائم امیر حمزا خان شینواری کے مزار کو دیکھنے کے لئے لوگ آتے ہیں چاروازگئی چیک پوسٹ سے سیدھے نکل کر آرمی چھاؤنی دکھائی دیتی ہے جہاں سابق پولیٹیکل انتظامیہ کے دفاتر اور پولیس سٹیشن بھی موجود ہیں تاہم چھاونی کے اندر دہشت گردی کی لہر شروع ہونے کے بعد عام لوگوں کی آمد بند کر دی گئی ہے لیکن لنڈیکوتل بازار کے راستے داخل ہو کر انتظامیہ اور پولیس کے دفاتر دیکھے جا سکتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ پہلے یہاں سول جج یا مجسٹریٹ کا دفتر اور عدالت بھی قائم کر دئے گئے ہیں اگر کسی بااثر اور اپروچ والے شخص کو آرمی چھاؤنی کے اندر جانے کی اجازت ملی تو وہ خیبر رائفلز مس، انگریز دور میں زنجیروں سے باندھے گئے درخت، سورج سے چلنے والی پرانی تاریخی گھڑیال اور لیڈی ڈیانا کا کمرہ دیکھ کر خوب لطف اندوز ہو سکتے ہیں سب سے زیادہ تاریخی اہمیت کا حامل اور وارٹ برٹن کا بنایا ہوا سرائے جیسے لنڈیکوتل بازار بھی کہا جاتا ہے دکھائی دیتا ہے جہاں پورے پاکستان سے سستی قیمت پر ہر قسم کی چیز مل سکتی ہے بد قسمتی سے گزشتہ چھ سالوں سے اس بازار کو بجلی سے محروم رکھا گیا یہاں پانی اور صفائی کے مسائل بھی تاحال موجود ہیں جس کی ذمہ داری ٹی ایم اے اور بازار یونین پر عائد ہوتی ہے اس تاریخی بازار میں چونکہ ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے اس لئے یہاں پارکنگ اور ٹریفک کے مسائل زیادہ رہتے ہیں جن کی طرف کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوتی لنڈی کوتل بازار سے جب سیاح نکلتے ہیں تو آگے پھر دو راستے آتے ہیں ایک راستہ نیچے مراد خان باغ کی طرف جاتا ہے جہاں وافر مقدار میں قدرتی چشمے کا صاف پانی بہتا ہے اور اکثر لوگ یہاں نہانے اور پکنک منانے کے لئے آتے ہیں جبکہ دوسرا راستہ طورخم بارڈر کی طرف جاتا ہے اور راستے میں سرخ پل آتا ہے جس کو انگریزوں نے بنایا تھا اس کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ ہر کوئی اس میں ایک سرے سے اندر جاکر دوسرے سرے سے نکلتا ہے اور یہی اس کی تاریخی اہمیت ہے اس سے تھوڑا آگے جاکر تاریخی میچنی چیک پوسٹ ہے جو کہ یہ بھی انگریز دور کی یادگار ہے جہاں سیاحوں کا سال بھر آنا رہتا ہے اور میچنی چیک پوسٹ پر قائم دو مقامات ایسے بنائے گئے ہیں جہاں آکر ہر کسی کو زیت اللہ اور زعفران آفریدی نامی ایف سی کے ریٹائرڈ اہلکار بریفنگ دیکر مچینی چیک پوسٹ، طورخم بارڈر، دریا کابل، درہ خیبر، ریل کی پٹڑی، سرنگوں اور سابق فاتحین اور جنگجوؤں کے بارے میں دلچسپ انداز میں بتاتے ہیں اور اگر کوئی نیچے جاکر طورخم بارڈر نہیں دیکھ سکتا تو ایسے افراد میچنی چیک پوسٹ سے دور بین کی مدد سے پورے طورخم بارڈر اور افغان گمرک اور سرحد پر قائم آخری پاکستانی گاؤں اول خان کلی کا نظارہ کر سکتے ہیں میچنی چیک پوسٹ سطح سمندر سے 3600 فٹ کی بلندی پر واقع ہے یہاں آنے والے تمام مہمانوں کی خاطر مدارت زیت اللہ، زعفران اور موجودہ سب انسپکٹر حکمت آفریدی کی ذمہ داری ہے جس کو وہ بخوبی سرانجام دیتے ہیں پھر طورخم بارڈر ہے جہاں سے آگے افغانستان کی حدود شروع ہوتی ہیں زیرو پوائنٹ پر پہلے خاصہ دار فورس تعینات تھیں اور اب ایف سی کے اہلکار تعینات ہیں طورخم میں فی الحال جدید طرز کا ٹرمینل تعمیر کرنے پر کام شروع ہے اور یہ کام این ایل سی والے کرتے ہیں طورخم میں پولیس، ایف سی، مختلف اداروں کے اہلکار تعنیات ہیں اور یہاں کسٹم کے دفاتر بھی موجود ہیں یہی وہ تاریخی مقامات ہیں جن کو دیکھنے کے لئے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سیاہ آتے ہیں اور سب سے بڑھ کر لنڈیکوتل کے کھانے کڑائی اور وریتہ بہت زیادہ مشہور ہیں اور جہاں وریتہ چھوٹا گوشت اور کڑائی مشہور ہیں وہاں اس کو فروخت اور پکانے والے قصائی حاجی دادین شینواری نے بھی مہارت، ہنر اور ایمانداری میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے کچھ ہی عرصہ پہلے سعودی میں رہائش پذیر میرے ہر دلعزیز دوست نور اسلم نے لنڈی کوتل میں پکائے جانے والی گوشت کڑائی اور وریتہ کی تعریف کرتے ہوئے فرمائش کی انشاء اللہ جب پاکستان واپس آؤنگا حاجی دادین شینواری کی سادہ ترین ریسٹورنٹ سے وریتہ گوشت کھائیں اور یا پھر ان کو گاؤں بلا کر ان کے ہاتھوں کی پکایا ہوا وریتہ گوشت کھائیں گے تو قارئین لنڈیکوتل دیکھنے کی جگہ ہے جہاں آپ کو تعمیر و ترقی اور سر سبز ماحول تو دیکھنے کو نہیں ملیگا لیکن آلودگی سے پاک ایک قدرتی ماحول ضرور ملیگا جس کی تاریخی اہلیت مسلمہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ کورونا کی اس تیسری لہر کے باوجود یہاں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جن میں اکثر سیاح موٹر سائیکلوں پر آتے ہیں۔

About Author

Leave A Reply