صحافی عدم تحفظ کا شکار کیوں؟ - Eye News Network

صحافی عدم تحفظ کا شکار کیوں؟

0

صحافی خلیل جبران شہید کی یاد
(سدھیر احمد آفریدی)
عیدالاضحٰی کے دوسرے دن 18جون کی رات خیبر کے علاقہ مزرینہ میں صحافی خلیل جبران آفریدی بے شہید کر دئے گئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل کے ذرائع کے مطابق شہید صحافی کو 19 گولیاں لگی تھیں پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بوجوہ شئیر نہیں کی گئی۔ سینئر صحافی صفدر داوڑ کے مطابق خلیل جبران شہید کے ساتھ قبائلی علاقوں میں مقتول صحافیوں کی تعداد 18 ہو گئی ہے جو کہ بڑی تعداد ہے تاہم ابھی تک کسی ایک صحافی کا قاتل بھی پکڑا نہیں گیا جس پر افسوس ہوتا ہے درست کہتے ہیں کہ جب کسی مقتول کا قاتل معلوم نہیں اس قتل کی ذمہ دار ریاست ہوتی ہے قبائلی علاقوں میں صحافت جوئے شیر لانے کے مصداق بہت مشکل کام ہے قبائلی علاقوں میں تین قسم کی قوتیں موجود ہیں ایک سیکیورٹی کے ادارے، دوسرے شدت پسند اور تیسرے اسمگلرز اور وہ بھی منشیات کے اسمگلرز جبکہ قبائلی رسم و رواج ایک اور دائرہ ہے جس کے اندر رہتے ہوئے صحافت اور رپورٹنگ کرنا پڑتی ہے جو کہ انتہائی مشکل کام ہے اس لئے تو کسی پشتون شاعر نے شاید ایسے موقع کے لئے اس شعر کا استعمال کیا تھا کہ؛
سرہ دا بغاوت جانانہ ارتے تنڑے گرزے
تعجب نہ دے پہ دومرہ رقیبانو کے جوندون
میرے اندازے کے مطابق 95 فیصد قبائلی صحافی بغیر تنخواہوں اور معاوضے کے صحافت کرتے رہے ہیں سوال بنتا ہے کہ اگر کسی کو تنخواہ نہیں ملتی تو پھر صحافت جیسے مشکل پیشے سے وابستگی کی کیا ضرورت پڑی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قبائلی صحافیوں کو اپنی مٹی اور اپنے لوگوں سے پیار ہے یہاں ان گنت مسائل ہیں یہاں کسی کی فریاد نہیں سنی جاتی قبائلی علاقے تعمیر و ترقی سے محروم رکھے گئے ہیں یہاں معیاری تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات ناپید ہیں یہاں کمیونیکیشن کے مسائل ہیں ،زراعت اور جنگلات ختم ہیں حتیٰ کہ قبائلی عوام گزشتہ 40 سالوں سے صرف پانی اور بجلی مانگتے رہے ہیں مگر ان کو یہ سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں قبائلی معاشروں میں صحافی باشعور ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اگر بطور صحافی علاقائی مسائل کو اجاگر نہ کیا جائے تو بطور ایک عام فرد یہ خدمت اور ترجمانی نہیں ہو سکتی وزیرستان سے لیکر باجوڑ تک عوام بدترین معاشی بدحالی سے دوچار ہیں قبائلی عوام قیام پاکستان سے لیکر اب تک تمام بنیادی انسانی،آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم ہیں قبائلی علاقوں میں جو غربت اور بے روزگاری ہے اس کی مثال پیش نہیں کی جا سکتی اگر یہ کہوں کہ دہشتگردی اور منشیات کی بنیادی وجوہات بھی جہالت، غربت اور بے روزگاری ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا قبائلی عوام کی آواز ملک کے اندر اور بیرون ملک سنائی نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوانوں نے دوسرے معمولی ذرائع روزگار کے ساتھ صحافت کے میدان میں قدم رکھ دئے تاکہ اپنی قوم اور اپنے علاقے کے لوگوں کی آواز سرکار اور پوری دنیا تک پہنچا سکے جس میں بڑی حد تک کامیابی ملی ہے موجودہ کمشنر پشاور ریاض خان محسود صاحب جب اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ لنڈی کوتل تھے تو انہوں نے ایک بار میڈیا کے نمائندوں سے شکایت کی کہ لنڈی کوتل کے چھوٹے سے علاقے کے چھوتے چھوٹے مسائل کو بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی سطح پر بیان کرنا شروع کر دیا ہے تھوڑا سا گزارا بھی کریں ان کے اس ردعمل سے مقامی صحافیوں کو معلوم ہوا کہ واقعی وہ اب درست سمت میں کام کر رہے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خلیل جبران شھید بھی ان صحافیوں میں شامل تھے جو قبائلی علاقے لنڈی کوتل کے ہر مسئلے کو ببانگ دہل بیان کیا کرتے تھے خلیل جبران آفریدی نے کبھی کسی خبر پر سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی کبھی علاقے کے مفاد کو فراموش کیا ہمیشہ کوئی نہ کوئی سرگرمی کیا کرتے تھے چونکہ وہ غریب تھے بہت غربت دیکھی تھی اور غربت کی وجہ سے اپنی تعلیم بھی جاری نہ رکھ سکے اتنے غریب اور بے بس تھے کہ اپنی شادی بھی خود نہ کر سکے بلکہ ان کے دوستوں نے ملکر انکی شادی کرانے کے لئے مقامی لوگوں اور پولیٹیکل انتظامیہ سے چندہ جمع کیا اور خلیل جبران کی شادی کا انتظام کیا خیبر ویلفیئر ہوم کے نام سے ایک مقامی این جی او بنائی تھی جس کے تحت انہوں نے علاقے میں چھوتے چھوٹے کام کئے کئی نوجوانوں کو روزگار دیا اور مختلف موضوعات پر سیمینارز کیا کرتے تھے وہ ایک متحرک انسان تھے صحافت سے ہٹ کر اگر ایک طرف وہ اپنا معاش بہتر بنانے کے چکر میں تھے تو دوسری طرف وہ سماجی اور فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش تھے خلیل جبران مختلف اطراف سے دباؤ میں تھے اور پریشان حال تھے خاندانی طور پر بھی اتنے مضبوط نہیں تھے ان کے چند ہی چچازاد بھائی ہیں مگر خدا کی قسم جب صحافی بھائی خلیل جبران شہید کو قبر کی لہد میں اتارا گیا تو چہرہ غریب اور معصوم لگ رہا تھا چہرے پر مٹی پڑی تو ضیاءالحق بھائی سے کہا کہ مٹی کے اس مہمان کا فی الحال چہرہ تو صاف کر دیں یہ منظر دیکھ کر ان کی غربت اور افلاس کی زندگی یاد آنے لگی سچی بات یہ ہے کہ آپ تو شدت پسندوں سے بہت ڈرتے تھے دور سے دیکھ کر بھی خلیل جبران کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ شدت پسند ہیں معلوم نہیں آپ نے اپنے قتل کا منظر دیکھ کر کیسے محسوس کیا ہوگا جب ان پر گولیاں برسانا شروع کر دی گئیں پہلے بھی ایک بار آپ ہینڈ گرینیڈ حملے میں زخمی ہوئے تھے مگر بچ نکلے تھے پھر مہاجرت اختیار کی علاقہ چھوڑ دیا اور کچھ عرصہ بعد جب حالات نارمل ہوگئے تو وہ بھی واپس آگئے پھر ظالموں نے ان کی کار کے نیچے بم نصب کیا الٹا آپ ہی موردالزام ٹہرے حالانکہ اس وقت ان کی کار میں ان کے ساتھ چار پانچ صحافی اور بھی تھے سیکیورٹی فورسز نے ان کو گرفتار کر لیا دوران قید بدترین تشدد سے گزرے لہولہان کر دئے گئے تھے جب پشاور کے سینئر صحافی دوستوں کے تعاؤن اور کوششوں سے رہا ہوئے تو آپ صحافیوں سے بغل گیر ہوکر رو پڑے وہ منظر آج بھی یاد ہے کاش کوئی ماں،باپ، بھائی یا بہن تو آپ کے ہوتے جو تمہاری شہادت پر ماتم تو کرتے تعزیت کے لئے بیٹھتے بس آپ کی اہلیہ تھی جو آپ کو کفن میں لپٹے دیکھ کر آپ کی تابوت پر گر جاتی اور بار بار بے ہوش ہونے لگتی یہ بھی سنا کہ تمہاری بڑی بیٹی نے ماں کی حالت غیر دیکھ کر حوصلہ دیتی رہی کہ ماں صبر سے کام لیں خوشحال خلیل بیٹے کو تو سانحہ کے بعد پورا دن نہیں دیکھا خوف کے مارے گھر سے نہیں نکل سکتے جبران بیٹا بھی حیران و پریشان دکھائی دیتا ہے کسی سے آپ کی برائی نہیں سنی لوگ معترف تھے کہ آپ خیرخواہ تھے قوم اور علاقے کے ہمدرد تھے امن پسند اور ترقی پسند تھے بس تمہاری یہی ایک کمزوری تمہیں قبر تک جا پہنچائی کہ آپ ظلم دیکھ کر خاموش رہنے کو گناہ سمجھتے تھے مہمان نوازی اور سخاوت میں نام کمایا تھا کبھی گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ بمشکل کھانا کھایا ہوگا مہمان ہی تمہارے دسترخوان کا حسن ہوا کرتے تھے بچوں کے بہترین مستقبل کے لئے پریشان ہوتے بیٹیوں اور خوشحال خان کو اقراء سکول میں داخلہ دلوایا تاکہ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن باترجمہ سیکھیں اور عملی مسلمان بنیں ہاں آپ تو پہاڑوں میں درختوں کے مالی اور محافظ تھے وہ درخت بھی اب پریشان ہونگے پرندوں اور انسانوں کے لئے اوپر پہاڑوں میں اور نیچے چشموں پر تالاب بنائیں تاکہ کوئی پیاسا نہ رہے واقعی یہ اعمال صدقہ جاریہ ہیں غریبوں کو پیسے نہیں دے رہے تھے کہ کہیں بھکاری نہ بنیں ان کو گھروں پر چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لئے معاونت کرتے رہے ان بے سہارا، یتیم اور مجبور لوگوں کی دعائیں بھی آپ کو ظالموں کی گولیوں سے نہ بچا سکیں افسوس صرف آپ کے بچے یتیم نہیں ہوئے شعراء اور ادیب بھی آپ کی کمی محسوس کرینگے صحافی اور پورا معاشرہ آج بھی تمہیں تحسین پیش کرتے ہیں پکنک پر جانا آپ کے بغیر بے مزہ ہوتا تھا کنجوسی اور بخل تمہیں چھو بھی نہ سکے صرف خیبر سلطان خیل قوم نہیں پورا لنڈی کوتل سوگوار چھوڑ کر ابدی نیند سو گئے ہاں قبر ہی نیک اور اچھے لوگوں کے لئے جائے پناہ اور سکون ہے ہاں دنیا فانی ہے جو جنازہ تمہیں نصیب ہوا شاید وہ تمہارے قاتلوں کو نصیب نہ ہو سکے تمہاری کمی مدتوں یاد رہیگی آپ کے جاندار کردار کا نتیجہ ہے کہ 19 جون کو ہزاروں افراد نے تمہاری تابوت پاک افغان شاہراہ پر رکھ کر گھنٹوں احتجاج کیا تمہارے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا بارہویں دن بھی خیبر تکیہ کے مقام پر خلیل جبران شہید دھرنا کیمپ لگا ہوا ہے آپ کے بچوں کو انصاف دلانے، قاتلوں کی گرفتاری اور علاقے میں امن کی خاطر ہزاروں افراد نے خیبر تکیہ کے مقام سے لنڈی کوتل کے تاریخی بازار تک سات کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا حالانکہ پیدل مارچ کے دوران گرمی کی شدت انتہائی زیادہ تھی جس میں ہر مکتبہ فکر کے افراد شریک تھے ہر کسی نے خلیل جبران کی شہادت اور بے دردی سے شہید کرنے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور واقعہ کی مذمت کی کاش صحافیوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے ملکی اور بین الاقوامی ادارے اور نیٹ ورکس آپ کی فریاد سن لیتے اور آپ کو کہیں پناہ دیتے محفوظ جگہ اور تحفظ فراہم کرتے مجھے معلوم ہے کہ آپ نے ایک اور ساتھی صحافی سے ملکر کئی ملکی اور بین الاقوامی صحافتی اداروں سے تحفظ فراہم کرنے کی اپیل کی لیکن کسی نے یقین نہیں کیا یقیناً خلیل جبران اور ان کے دوسرے ساتھی صحافی نے جھوٹ نہیں بولا تھا سچی بات یہ ہے کہ دونوں کو دھمکیاں مل رہی تھیں دونوں خطرات سے دوچار تھے دیگر خواہش مندوں کی طرح جھوٹے بہانے بناکر بیرون ملک بھاگنا ان کا قطعاً مقصد نہیں تھا مگر کچھ نہیں ہوا خلیل جبران تو شہید کر دئے گئے اللہ باقی لوگوں کی حفاظت کریں خلیل جبران شہید کی اہلیہ اور بچے خوفزدہ ہیں ان کو ریلوکیٹ کرنے کی ضرورت ہے صوبائی اور مرکزی حکومت ان کو ایک ایک کروڑ کا شہید پیکیج دیں، ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری لیں اور ان کی حفاظت کا بندوبست کریں خیبر لنڈیکوتل کے عوام کا کہنا اب یہ ہے کہ امن و امان اور خلیل شہید کے قاتلوں کی گرفتاری کی ضمانت اور یقین دہانی دینے تک وہ احتجاجی دھرنا ختم نہیں کرینگے۔

About Author

Leave A Reply