کے پی میں بلدیاتی انتخابات، کیا پایا کیا کھویا؟ تحریرسدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

کے پی میں بلدیاتی انتخابات، کیا پایا کیا کھویا؟ تحریرسدھیر احمد آفریدی

0

19
دسمبر کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جن میں سابق فاٹا کے تین اضلاع خیبر، مہمند اور باجوڑ بھی شامل تھے، چونکہ قبائلی علاقوں میں پہلی بار جمہوری طریقے سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا جو واقعی ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جس کے لئے الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کو داد دینا پڑیگا اگرچہ صوبائی حکومت مختلف بہانوں سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے بوجوہ راہ فرار بھی اختیار کر رہی تھی لیکن سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ نے حکومت کو بھاگنے نہیں دیا اور شیڈول کے مطابق بلدیاتی انتخابات کروانے پر مجبور کر دیا۔

میری ذاتی رائے میں کبھی کسی الیکشن میں آزاد حیثیت سے کسی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ان ہی آزاد امیدواروں کی وجہ سے الیکشن میں بے پناہ پیسے کا استعمال ہوتا ہے اور پھر پارلیمنٹ کے فلور پر یہی آزاد کامیاب نمائندے ہارس ٹریڈنگ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں، اگرچہ سیاسی نمائندے بھی وفاداری تبدیل کرکے بک جاتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر قبائلی اضلاع میں سب سے بڑی ناانصافی خواتین کے ساتھ کی گئی، جو پہلی بار عام انتخابات کے مقابلے میں کافی بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے گھروں سے نکلی تھیں لیکن ہر پولنگ اسٹیشن پر صرف چند سو خواتین نے ووٹ کا حق استعمال کیا باقی ہر جگہ ہزاروں خواتین ووٹ کے بنیادی حق سے محروم کر دی گئیں اور اس کی معقول وجوہات تھیں اگر ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی بات کی جائے تو یہاں الیکشن کمیشن نے واضح طور پر بتا دیا تھا کہ ہر پولنگ اسٹیشن کے اندر تین تین بوتھ ہونگیں لیکن عملاً ایک بوتھ ہر جگہ تھی چونکہ ویلیج کی سطح پر پانچ اور نیبرہوڈ کونسل کی سطح پر اقلیتی برادری کے امیدواروں کی موجودگی کی وجہ سے چھ ووٹ کاسٹ کرنا ایک مشکل کام تھا خواتین کے لئے پانچ بیلٹ پیپرز پر ووٹ کے مہر لگانا پریشانی کا باعث اس لئے بنا کیونکہ وہ اس طریقہ کار سے نابلد تھیں دوسری بات یہ کہ خواتین پولنگ عملہ کم اور ناتجربہ کار تھا اور خواتین کے بے پناہ رش کی وجہ سے ان کو کنٹرول کرنا قدرے مشکل رہا پولیس کی کم تعداد اور زیادہ تر پولنگ اسٹیشنز پر ان کی جانبداری کی وجہ سے ایک تو کئی پولنگ اسٹیشنز پر معمولی لڑائیاں جھگڑے ہوئے اور دوسرا یہ کہ پولیس کی جانبداری کی وجہ سے مخالف امیدواروں کی سپورٹرز خواتین کو ووٹ کاسٹ کرنے نہیں دیا گیا ان وجوہات کی بناء پر خواتین پولنگ سٹیشنوں پر لڑائی جھگڑے اور پولنگ کا عمل بار بار تعطل کا شکار رہا پولنگ ڈے سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے الیکشن کمیشن اور سول انتظامیہ کے پاس جاکر شکایات کیں کہ ایک تو مختلف گاؤں اور قبیلوں کے ووٹرز کو غلط طریقے سے تقسیم کرکے ادھر ادھر پھینک دیا گیا ہے جو کہ سب سے بڑی غلطی تھی اور بغیر کسی مشاورت اور ہوم ورک کے ویلیج کونسلوں کو غلط طریقے سے تقسیم کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے قریبی رشتہ داروں کے ووٹ تقسیم ہوئے اور ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنز ڈھونڈنے میں سارا وقت لگانا پڑا اور یہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے عام انتخابات میں بھی مرد و خواتین ووٹرز کو کافی مشکلات درپیش تھیں ووٹر لسٹوں میں اب بھی بڑی تعداد میں مرحومین کے نام موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن غفلت کا مظاہرہ کر رہا ہے دور آفتادہ علاقوں جیسے لنڈی کوتل کے بازار ذخہ خیل میں اساتذہ کو مناسب سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ان کو پولنگ ڈے پر خوب بے عزتی سے گزرنا پڑا جس کے ردعمل میں اساتذہ نے کہا کہ وہ آئندہ بازار ذخہ خیل جیسے علاقوں میں پولنگ ڈیوٹی نہیں کرینگے بازار ذخہ خیل میں پولنگ خوشگوار ماحول میں درست طریقے سے ہو رہی تھی لیکن ناقص سیکیورٹی کی وجہ سے چند ہی لوگوں نے بازار ذخہ خیل اور ملحقہ علاقوں میں زبردستی پولنگ کا عمل روک دیا اور اس طرح وہاں سرے سے پولنگ ہی نہیں ہو سکی جو ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے لیکن دوسری طرف وادی تیراہ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایس ایچ او شاہ خالد آفریدی نے پرامن اور خوشگوار ماحول میں انتخابات کو ممکن بنایا اور وہاں سے کوئی بڑی شکایت سامنے نہیں آئی  بازار ذخہ خیل میں پولنگ نہ ہونے کے سبب لنڈی کوتل چئیرمین شپ کے کامیاب امیدوار کا سرکاری اعلان نہیں ہو سکے گا اور اب وہاں دوبارہ الیکشن کرانا پڑیگا خواتین پولنگ سٹیشنوں کے اندر غیر متعلقہ افراد کے داخل ہونے سے بھی مسائل پیدا ہوئے اور بات جھگڑوں تک پہنچ گئی بیلٹ پیپرز تعداد کے مطابق پریزائڈنگ آفیسرز کو دئے جاتے ہیں لیکن حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ بہت بڑی تعداد میں بیلٹ پیپرز کیسے باہر آئے جن پر مہریں لگی ہوئی تھیں اس کی تحقیقات کروانے کے مطالبے میں احتجاج کرنے والے سیاسی اور آزاد امیدوار حق بجانب ہیں الیکشن مہم کے دوران ضابطہ اخلاق اور قوانین کی خلاف ورزی عام تھی لیکن کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا اور کئی امیدوار ایسے تھے جو دوران الیکشن مہم ترقیاتی کاموں کے اعلانات اور افتتاح بھی کرتے رہے لیکن الیکشن کمیشن سوتا رہا اور کہیں ایکشن نہیں لیا اکثر پولنگ اسٹیشنز کے باہر ووٹرز کی رائے بدلنے کے لئے پیسے کا استعمال ہوتا رہا تاہم کسی نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا غیر متعلقہ افراد پولنگ اسٹیشنز کے اندر دکھائی دیئے جو ڈھیرے ڈال کر بیٹھے رہے حالانکہ پولنگ اسٹیشن کے اندر صرف ووٹرز، امیدوار یا اس کے مخصوص نمائندے، متعلقہ حکام اور میڈیا کو جانے کی اجازت ہوتی ہے جن خواتین پولنگ سٹیشنوں کے باہر ہزاروں کی تعداد میں خواتین موجود تھیں ان کو پانچ بجے کے بعد بمشکل معمولی اضافی وقت دیا گیا حالانکہ قانون یہ ہے کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن کے اندر بلایا جاتا ہے اور جب تک سارے ووٹ کاسٹ نہیں کرتے اس وقت تک پولنگ جاری رکھی جاتی ہے مگر لنڈی کوتل میں ایسا نہیں کیا گیا یہ ایک حقیقت ہے کہ لنڈی کوتل میں بجلی برائے نام ہے لیکن پولنگ ڈے پر پانچ کے بعد بجلی فراہم کرنا متعلقہ اداروں کی ذمہ داری تھی لیکن کہیں کسی پولنگ اسٹیشن پر ووٹنگ کی گنتی کے دوران بجلی نہیں تھی اور بیٹری ٹارچ یا موبائل فونز سے لائٹ کا مسئلہ پولنگ ایجنٹوں نے خود ہی حل کردیا بحر حال اس سے بھی ایک مشکل پیش آئی انسان اور ادارے تجربات سے سیکھ کر اصلاح کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ روایت نہیں اس لئے مسائل جوں کے توں رہ جاتے ہیں الیکشن کمیشن اور سول انتظامیہ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ووٹر لسٹوں کی تصحیح کرکے ہر ووٹر کو قریب ترین پولنگ اسٹیشن دیں اور ویلیج کونسلوں کو بھی از سر نو ترتیب دیں اور ہر گاؤں کو  آبادی کے حساب سے ویلیج کونسل کا درجہ دیں اور جن پولنگ اسٹیشنز پر بار بار لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور جہاں سے شکایات زیادہ آتی ہیں وہ ختم کر دیں اور آئندہ وہاں پولنگ اسٹیشن قائم نہ کئے جائیں تاکہ صاف اور شفاف انتخابات کو ممکن بنایا جا سکے اور مستقبل میں سنگین نوعیت کے مسائل اور اعتراضات سے بچا جا سکے۔

About Author

Leave A Reply