وفاقی حکومت نے بجٹ میں قبائلی علاقوں کے لئے 57 ارب روپے مختص کئے ہیں اگر بجٹ میں مختص رقم ضم شدہ سات قبائلی اضلاع اور چھ ایف آرز پر آبادی کے تناسب سے تقسیم کی جائے تو ہر ضلع کو کیا ملیگا،کچھ بھی نہیں، حالانکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ان 57 ارب میں سے قبائلی اضلاع کی انتظامیہ اور پولیس وغیرہ سمیت سب محکموں کو اپنا اپنا حصہ دیا جائے گا جبکہ قبائلی ملکان اور مشران کے ماہانہ خرچے بھی شاید اسی سے پورے کئے جائیں گے جو کہ نہیں کرنا چاہئے یہ درست ہے کہ اب قبائلی اضلاع صوبے کا حصہ ہیں اور ہمارے زیادہ تر محکمے صوبائی حکومت کے ماتحت ہو چکے ہیں جیسے تعلیم اور صحت وغیرہ تاہم مرکزی حکومت پر لازم ہے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں سے تین فیصد رقم کی ادائیگی یقینی بنائیں جو کہ انضمام کے بعد وعدوں کے باوجود این ایف سی کی وہ رقم قبائلی عوام کو فراہم نہیں کی جا چکی ہے ہمیں یاد ہے کہ 2013 میں جب انضمام نہیں ہوا تھا تب بھی قبائلی علاقوں کے لئے 46 ارب کا ترقیاتی بجٹ دیا گیا تھا قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے خطیر رقم فراہم کرنے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ بیس سالوں کی دہشت گردی، ملٹری آپریشنز اور بے گھر ہونے کی وجہ سے قبائلی عوام نے جو نقصانات اٹھائے ہیں اور علاقے جس طرح کھنڈرات کا منظر پیش کرتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں بجٹ کے اندر 57 ارب رکھنے پر حیران ہیں کہ یہ رقم اگر مختلف محکموں پر تقسیم کی جائے تو متعلقہ محکمے اتنی معمولی رقم سے کونسے کام کرینگے اور دوسری طرف قبائلی عوام کی بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ ایک پسماندہ اور مقروض صوبے میں ضم کر دئے گئے ہیں ذمہ دار حلقوں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں گیس، کوئلہ، ماربل اور دیگر معدنیات وافر مقدار میں ہیں اور سیاحت کو صنعت کا درجہ دیا جا سکتا ہے لیکن حکومت اس طرف متوجہ ہی نہیں ہو رہی کہ ان معدنیات کو نکال کر اور بروئے کار لاکر ان سے حاصل ہونے والی آمدنی قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی پر خرچ کریں اور یہاں سیاحت کو فروغ دیں جس سے کافی فائدے ملیں گے اسی طرح ایک یا دو سال کے لئے قبائلی علاقوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا بھی مضحکہ خیز ہے سابق اور موجودہ حکمرانوں نے قبائلی علاقوں میں انفراسٹرکچر قائم کرنے اور اس کو بہتر بنا کر ترقی دینے کے لئے کچھ بھی نہیں کیا اور اگر کہیں اکا دکا کچھ بن رہا ہے تو وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں بارہا لکھ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں پوٹینشل موجود ہے لیکن کوئی حکمران اخلاص کے ساتھ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا جس کی وجہ سے قبائلی عوام کی غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے سرحدی گزرگاہوں جیسے طورخم پر مختلف قسم کی پابندیوں نے صدیوں سے جاری قبائلی عوام کا روزگار بھی خراب کر دیا ہے یہاں صنعتیں قائم نہیں کی جارہی ہیں تو بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ آخر حکمران قبائلی عوام کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنے بجٹ میں قبائلی اضلاع کے لئے کتنی رقم رکھتی ہے یا الفاظ کے گورکھ دھندوں سے صوبائی حکومت بھی قبائلی عوام کی آنکھوں میں خاک ڈالنے کی کوشش کریگی 57 ارب کی رقم کو اگر ڈبل بھی کیا جائے تب بھی یہ رقم بہت کم ہے جس سے صرف ہیلتھ اور ایجوکیشن کے مسائل ختم تو دور کی بات ہے کم بھی نہیں ہو سکتے کہنے کا مطلب ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کو نظر انداز نہ کریں بلکہ سب سے زیادہ رقم دفاع کے بعد قبائلی اضلاع کے لئے مختص کریں اور یہ انصاف کا تقاضا ہے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ میں سب سے زیادہ مالی اور جانی نقصانات قبائلی عوام نے برداشت کئے ہیں تاہم ملک پر آنچ بھی نہیں آنے دیا لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور تاحال بڑی تعداد میں بےگھر ہیں جبکہ کولیشن فنڈ سمیت کیری لوگر بل کی رقومات میں سے بھی قبائلی علاقوں کے لئے کچھ نہیں ملا ہے حالانکہ حکمرانوں نے ہمیشہ قبائلی علاقوں میں انتہاء پسندی، دہشت گردی، غربت اور جہالت کے عنوانات کو عالمی سطح پر پیش کرکے کیش کرنے کی کوشش کی ہے تاہم عملی طور پر ان اشوز پر قابو پانے کی کوشش نہیں کی گئی ہے اور حال یہ ہے کہ اب بھی قبائلی علاقوں میں بھتہ خوری اور دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا ہے جس سے وہ دعوے غلط ثابت ہوئے کہ دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا ہے اور دہشت گردوں کا نیٹ ورک ختم کر دیا گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر قبائلی علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے دوسرے واقعات رونما ہوتے ہیں سب سے بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ قبائلی علاقوں سے کوئی لیڈر برآمد نہیں ہوا جو اخلاص اور نیک نیتی سے قبائلی عوام کی قیادت اور ترجمانی کر سکے چھوٹے چھوٹے مسائل میں قبائلی عوام الجھا دئے گئے ہیں اس لئے ان کی سوچ محدود کر دی گئی ہے جس کی مثال حالیہ بجٹ ہے جس پر قبائلی علاقوں سے کوئی موثر آواز نہیں اٹھی یہ جو 57 ارب روپے اسحاق ڈار نے قبائل کے لئے اعلان کئے ہیں ہمارا یقین ہے یہ بھی محض ایک اعلان ہی ثابت ہوگا کچھ ملیگا نہیں جیسا کہ پہلے یہ روایت رہی ہے قبائلی علاقوں میں کرپشن کی روک تھام اور فنڈز کے شفاف استعمال کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور اجتماعی فلاح و بہبود پر اگر فنڈز خرچ ہو جائیں تو بہتر نتائج دے سکیں گے اسی طرح بیوروکریسی بھی ایک بے لگام بلا ہے جس کو خادم کی حیثیت سے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بیوروکریسی قبائلی عوام کے فنڈز کو مزید ذاتی استعمال اور عیاشیوں پر خرچ نہ کر سکے اور اب وہ پرانا دور گزر چکا ہے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے اس لئے کوئی عملی طور پر میدان میں نہ بھی آئے تب بھی وہ سوشل میڈیا پر کسی کا بھی پوسٹ مارٹم کر سکتے ہیں آخری میں یہ تجویز دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ قبائلی علاقوں میں بیوروکریسی کو لگام دینے کے لئے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بنائیں اور جو بلدیاتی نمائندے منتخب ہو چکے ہیں ان کو اختیارات دئے جائیں اور سارے فنڈز بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کئے جائیں کیونکہ وہ براہ راست عوام کو جواب دہ ہوتے ہیں اور ان کا کام ترقیاتی منصوبوں کو جاری و ساری رکھنا ہوتا ہے اگر ان کو اختیارات اور فنڈز فراہم کئے جائیں اور آئندہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی و سینیٹ کے منتخب نمائندوں کو قانون سازی تک محدود کر دیا جائے تاکہ وہ ترقیاتی کاموں میں مداخلت سے دور رہے اور قانون سازی کے آئینی کردار تک محدود ہو سکے ۔