افغانستان کےاندرخانہ جنگی کےاثرات! سدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

افغانستان کےاندرخانہ جنگی کےاثرات! سدھیر احمد آفریدی

0

                         9/11

کے بعد جب امریکہ نے نیٹو کی فوجی قوت کے ساتھ ملکر افغانستان پر یلغار کر دیا اس وقت پاکستان کے بعض دوراندیش اور دانشور سیاسی رہنماؤں نے کہا تھا کہ افغانستان میں امریکہ اور ایساف فورسز کی شکست نوشتہ دیوار ہے اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ ایک تو امریکہ باطل ہے اور باطل کو بالآخر شکست ہوتی ہے اور دوسری دلیل یہ بیان کرتے تھے کہ افغانستان اس سے پہلے برطانیہ اور پھر روس جیسی سپر طاقتوں کا قبرستان ثابت ہو چکا ہے اس لئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا قبرستان بھی افغان سرزمین ہوگی یہ تو عام لوگوں کو بھی علم ہے کہ امریکہ کو ہر حوالے سے شرمندگی، رسوائی اور مالی جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا مجھے یاد ہے کہ پاکستان کی مذہبی اور بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جنرل پرویز مشرف پر دباؤ ڈالا اور کھل کر تنقید بھی کی کہ افغان طالبان کے مقابلے میں امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہئے لیکن کیا کریں وہ کمزور اور بزدل ثابت ہوئے اور وہی کیا جس کا امریکہ نے ڈو مور کی شکل میں مطالبہ کیا ہوائی آڈے دئے گئے اور افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں سے اپنے اہداف پر میزائل برسانے کی اجازت دی گئی لیکن پھر بھی ہم امریکہ کو خوش نہ کر سکے اور الٹا پاکستان نے ستر ہزار سے زیادہ اپنے فوجی اور سول لوگوں کی قربانی دی اور پرائی جنگ کا ایندھن بن گئے 150 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہمیں اٹھانا پڑا اور حاصل کچھ نہیں کیا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج ہماری سول اور میلیٹری قیادت نے افغانستان کے حوالے سے جس غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی ہے اور حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اگر یہی پالیسی اس وقت اپنائی جاتی تو شاید پاکستان کو اتنا زیادہ نقصان نہ اٹھانا پڑتا بحر حال اب آنے والے حالات پر گہری نظر رکھنے اور اچھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ہم کسی طرح دوبارہ آزمائش سے اپنی قوم کو دوچار نہ کریں پاکستان کی یہ پالیسی درست ہے کہ ہم افغانستان میں خانہ جنگی نہیں دیکھنا چاہتے اور پرامن افغانستان ہماری ضرورت ہے اور یہ بھی درست لائن اختیار کی گئی ہے کہ افغان عوام جن لوگوں کے ہاتھوں میں عنان اقتدار دے دیں ہم اسی حکومت کے ساتھ کھڑے ہونگے افغانستان میں امن نہیں ہوگا تو پاکستان کے بالخصوص قبائلی علاقے پھر متاثر ہونگے جس کے برے اثرات پورے ملک پر مرتب ہونگے غلطیاں تو شروع سے بہت ساری کی گئی ہیں لیکن عقل کا تقاضا ہے کہ ہم دوبارہ من حیث القوم ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کریں جس تیزی کے ساتھ افغانستان میں حالات خراب ہو رہے ہیں اس نے قبائلی علاقوں کے لوگوں اور پورے پختونخواہ کے لوگوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے ایک تو پہلے سے ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے پنجے گاڑ دئے ہیں اور اوپر سے اگر دوبارہ افغان عوام مہاجر ہو کر آئے تو اس کے بہت برے اثرات مرتب ہونگے اگر اقوام متحدہ کے دباؤ پر یا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان مہاجرین کو آنے کی اجازت دی گئی تو پہلے کی طرح ان کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہئے بلکہ مخصوص مقامات پر کیمپوں کے اندر ان کو رجسٹرڈ کرواکر رکھنا چاہئے تاکہ ان کیوجہ سے پاکستانی علاقوں میں کوئی خرابی پیدا نہ ہو بحر حال ہماری سیاسی اورفوجی قیادت نے افغانستان کے بارے میں جو نئی پالیسی اختیار کی ہے وہ بلکل درست ہے تاہم پھر بھی وقتاً فوقتاً جائزہ لینا چاہئے کہ بین الاقوامی قوتیں کیا کرتی ہیں ایک طرف ایران، دوسری طرف انڈیا اور تیسری طرف چائنہ بھی ہمارے پڑوسی ہیں امریکہ سے ہٹ کر ان کی بھی موجودہ صورتحال پر نظر ہوگی بحر حال ہمیں اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا چاہئے اور یہ فیصلہ درست ہے کہ بھاگے ہوئے شکست خوردہ امریکیوں کو پاکستان میں ایسی کوئی سہولت نہیں دینی چاہئے جس کے سبب وہ پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں مداخلت کر سکے جس طرح ہم افغان حکومت سے مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے اور دوسری بات یہ کہ اگر امریکہ کو یہاں ایسی کوئی سہولت دی گئی تو لازمی بات ہے کہ ہم چین اور ایران کو بھی ناراض کر لینگے افغانستان میں کوئی مثبت اور تعمیری کردار ادا نہ کرکے امریکہ نے بہت بڑی چال چالی ہے انہوں نے اپنی کٹھ پتلی حکومت کو بھی خطرات سے دوچار کر دیا ہے کوئی سیاسی تصفیہ اور مصالحت کئے بغیر افغانستان سے بھاگ جانا امریکہ کی بہت بڑی سازش ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی ہوگی بلکہ پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان پر اس کے بہت برے اور خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں پاکستان کو بھی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں چاہئے اور جتنا ہو سکے افغانستان کے اندر پرامن ماحول اور مصالحت کے لئے برادرانہ کردار ادا کرنا چاہئے افغانستان بدامنی کا شکار ہوا تو وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ ہمارے تجارتی معاہدے بے سود ثابت ہونگے علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا کہ ایشیا ایک جسم کی مانند ہے اور افغانستان اس کا دل ہے اور جب دل میں فساد ہوگا تو پورا جسم بےقرار رہیگا قاضی حسین احمد مرحوم سے بھی یہ کئی بار سنا تھا کہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے ممالک کے مابین افغانستان ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے جب یہ پل ویران ہوگا تو رفت آمد اور کاروبار کچھ نہیں ہو سکے گا آور اگر افغانستان ٹھیک ہوگا تو اس پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہوگا اس تحریر کو لکھنے کی شہ خیبر سیاسی اتحاد کے قائدین کی نیوز کانفرنس سے ملی خیبر سیاسی اتحاد کے نو منتخب صدر شاہ حسین شینواری نے دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ نیوز کانفرنس کے دوران پیش آمدہ صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی قائدین افغانستان میں بگڑی ہوئی صورتحال سے غافل نہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر قبائلی عوام آزمائش اور مشکلات سے دوچار ہوں انہوں نے کہا کہ ہم اپنے علاقوں میں امن کے خواہاں ہیں اور جب امن نہیں ہوگا تو باقی ساری چیزیں بیکار ہیں یہ درست ہے کہ افغانستان میں حالات جس تیزی کے ساتھ خراب ہو رہے ہیں اس نے ہر  باشعور پاکستانی اور خاص کر قبائلی عوام کو تشویش میں ڈال دیا ہے چونکہ یہاں قبائلی علاقوں میں غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر ہیں اور خدانخواستہ اگر افغان خانہ جنگی کے شعلے یہاں تک پہنچنا شروع ہوگئے تو یہ جو قربانیوں کے نتیجے میں امن قائم ہوا ہے یہ شاید پھر اس سے زیادہ خراب ہو جائیں جس کا ملک اور قوم کو بہت بڑا نقصان ہوگا پوری قوم کو اس موقع پر ایک پیج پر ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنے ملک کو بین الاقوامی سازشوں سے بچا جا سکے۔

About Author

Leave A Reply