ویسے تو پورے ملک میں بے روزگاری اور غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن پاکستان کے نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں غربت اور بے روزگاری نے مکمل طور پر پنجے گاڑ دئے ہیں 2001 کے بعد انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی وجوہات کا اگر جائزہ لیا جائے تو قبائلی علاقوں میں بے پناہ غربت اور بے روزگاری نے نوجوانوں کو انتہاء پسند بنا کر ان کو دہشتگردوں کی صفوں میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا بہت سے لوگوں سے سنا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں کسی سرحد پر لوگ آباد ہیں وہ خوشحال ہوتے ہیں اور ان کی آمدن کے ذرائع زیادہ ہوتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر جگہ سرحد کے آر پار کاروبار اور تجارت کر سکتے ہیں اور ان کو دو سرحدی ممالک کے مابین آمدورفت میں کوئی زیادہ دقت اور مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا یہ درست ہے کہ پڑوسی ممالک کے مابین لوگ قانونی سفری دستاویزات کے ساتھ آمدورفت کرتے ہیں اور یہ ہونا بھی چاہئے ہمارے طورخم بارڈر کا اگر جائزہ لیا جائے تو این ایل سی کے آنے اور ایف سی کے اختیارات میں بے پناہ اضافہ کئے جانے سے مقامی قبائلی عوام کا روزگار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے درآمدات اور برآمدات کے حوالے سے سخت قوانین کی بدولت ان میں کمی آرہی ہیں اور جب درآمدات اور خاص کر برآمدات میں کمی آجاتی ہیں تو اس سے ملکی خزانے، کارخانہ دار طبقہ اور اس کاروبار سے وابستہ دیگر لوگ حتیٰ کہ معمولی مزدور لوگ بھی پریشان حال رہتے ہیں اور یہ صورتحال اب ہم طورخم میں دیکھ رہے ہیں یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ صرف معمولی نوعیت کا کاروبار کرنے والے لوگ حد درجہ خراب ہو گئے جبکہ بڑے مگرمچھوں کا کھیل بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے مچینی چیک پوسٹ پر کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو سمگلنگ کے سامان سے لدی چھوٹی گاڑیاں آتی ہیں اور بڑے بڑے ٹرکوں میں بڑے لوگوں کا سامان بھی آتا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر جگہ آپ کو افغانستان سے لایا ہوا سامان مل سکتا ہے جن کی قیمت نسبتاً کم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف چھوٹے لوگ اور مزدور پریشان ہیں جبکہ بڑے لوگوں کا دھندا خوب جاری ہے اور یہ سب کچھ طورخم اور دیگر سرحدی راستوں سے ہوتا ہوا آتا ہے تو لازمی بات ہے کہ کسٹم حکام بالخصوص کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز اور این ایل سی کے متعلقہ اہلکاروں کی اشیر باد اور رضامندی کے بغیر یہ سارے غیر قانونی کام نہیں ہو سکتے ہیں سیگریٹ، ٹائرز اور دیگر سامان بڑی مقدار میں آتا ہے جس میں کسی کمزور کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا اگر کسٹم حکام کا قبلہ درست کیا گیا اور انہوں نے برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے قوانین میں کچھ نرمی دکھائی تو پاکستانی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ ہو سکتا ہے جس سے پورے ملک کا فائدہ ہے اور مقامی لوگوں کا روزگار کچھ بہتر ہو سکے گا لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں لینا چاہیے کہ کسٹم حکام اور کسٹم کلئیرنگ ایجنٹ کو آزاد اور بے لگام چھوڑ دیا جائے جو وہ کرنا چاہے کریں کسٹم کے سپرنٹنڈنٹس اور انسپکٹرز طورخم میں بہت خوشحال جبکہ مقامی عام لوگ اور کاروباری طبقہ زاروقطار رو رہے ہیں کہ وہ برباد ہو گئے یہی برا حال طورخم کے مزدوروں کا بھی ہے جو ہر ہفتے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ طورخم بارڈر پر نرمی کی جائے تاکہ وہ آسانی سے بارڈر کے آس پاس جا سکے اور اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی کما سکے لیکن ان کی فریاد کوئی نہیں سنتا اور ان کے ساتھ جاری سختی کی وجہ سے ہزاروں مزدور بے روزگار ہو کر بیٹھ گئے ہیں جس کے نتیجے میں ان کے گھروں کے اندر فاقوں کی خبریں روز ملتی ہیں یہ تو عام سی بات ہے کہ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے تو جرائم بڑھتے ہیں اور پھر جرائم پیشہ عناصر کے منظم گروہ بن جاتے ہیں جن کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوتا آخر جب بے روزگاری اور غربت قبائلی علاقوں میں اتنی بڑھ گئی ہے تو اس کا انجام کیا ہوگا یقینآ بہت برا ہوگا قبائلی اضلاع کو صوبے میں ضم کر دیا گیا ریاست نے وعدے کئے کہ قبائلی علاقوں اور قبائلی عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر بڑے ترقیاتی کام کئے جائیں گے، قبائلی نوجوانوں کو روزگار دینگے، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دئے جائیں گے لیکن ابھی تک بر سر زمین کچھ دکھائی نہیں دیتا ہر طرف مایوسی کا عالم ہے کسی کو کوئی بنیادی حقوق حاصل نہیں اور حتیٰ کہ پرامن احتجاج کرنے والوں پر جمرود میں پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا جاتا ہے لیکن کسی کی فریاد نہیں سنی جاتی عدالتوں سے بلکل ابتداء میں لوگوں کا اعتماد آٹھ چکا ہے اور حالت یہ ہوگئی کہ اب قبائلی عوام کی اکثریت انضمام نامنظور تحریک کا حصہ بن رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس موجودہ پولیس اور کچہری کے فرسودہ نظام سے انگریز کا دیا ہوا پولیٹیکل انتظامیہ کا نظام بدرجہا بہتر تھا قبائلی پولیس خود رو رہی ہے کہ ان کی سروس سٹرکچر کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں کیا گیا، ان کو صوبے کی دیگر پولیس جیسی سہولیات اور مراعات حاصل نہیں اور ابھی تک وہ اپنی وردی، اسلحے اور کارتوس کے ساتھ خطرناک مقامات پر ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں اور کسی کو راشن تک نہیں ملتا کرپشن کا بہانا بنا کر کسی کی اصلاح نہیں کی گئی بلکہ الٹا ڈی پی او صاحب نے طورخم سمیت شاہراہ پر کئی چیک پوسٹوں کو ختم کرکے شاہراہ کو غیر محفوظ بنا دیا بھئی کرپشن ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی پولیس کی ضروریات پوری کر دو ان کی اچھی تربیت کرو اور ان کو دیگر پولیس کی طرح سہولیات اور مراعات فراہم کرو اب اگر خدانخواستہ طورخم یا درہ خیبر پر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا ہونا یہ چاہئے کہ ماتحت پولیس آفسران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کے لئے روٹیشن کا نظام لائیں تاکہ ایک گول چکر میں ہر کوئی ہر جگہ ڈیوٹی کر سکے اور کسی کو کوئی شکایت بھی نہ ہو اور اگر اوپر سے ٹھیکیدار مسلط ہیں اور وہ ہفتہ واری کی بنیاد پر اپنے لوگوں کی تعیناتی کے لئے کام کرینگے تو پھر مسائل تو سامنے آئینگے ایک متعین مدت کے اندر پولیس کی ٹرانسفر پوسٹنگ ہونی چاہئے اسی طرح اگر دیکھا جائے تو لنڈیکوتل سمیت ضلع خیبر میں ہسپتالوں کے اندر بھی صورتحال بہت خراب دکھائی دیتی ہے اور کرپشن اور ڈیوٹی میں غفلت کی بہت ساری شکایات سامنے آرہی ہیں جو جتنا زیادہ اختیار رکھتا ہے اتنا ہی زیادہ ظلم کرتا ہے تو جب ناانصافی، غربت اور بے روزگاری میں حد سے بڑھ کر اضافہ ہوجائے تو پھر سکون کوئی کہاں تلاش کریگا یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ کرپشن،چوری، بے ایمانی، ملاوٹ اور دیگر سماجی برائیوں میں لت پت ہو چکے ہیں معاشرے کو منظم کرنا ضروری ہے تاکہ سماجی برائیوں کا راستہ روکا جا سکے، ہر کسی کو اصلاح معاشرے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی، امن کے قیام، پسماندہ طبقات کو اوپر لانے، بے روزگاری اور غربت پر قابو پانے کے لئے قومی اور ملی جذبے کے تحت ایمانداری کے ساتھ کام کریں ورنہ حالات اگر اسی رفتار کے ساتھ بگڑ گئے تو پھر قابو کرنا مشکل ہوگا۔