لنڈی کوتل میں انوکھی آزادی! سدھیر احمد آفریدی - Eye News Network

لنڈی کوتل میں انوکھی آزادی! سدھیر احمد آفریدی

0

 سماجی کارکن حاجی شاکر آفریدی ہر سال 14 اگست کو یوم آزادی پاکستان انوکھے انداز سے مناکر نہ صرف علاقے کے لوگوں کو بلکہ پورے پاکستان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں گزشتہ سال ایک بہت بڑا کیک بنا کر کھانے کے لئے پیش کر دیا جس پر قومی جھنڈا بنایا گیا تھا اور شاید اس سے بڑا کیک پاکستان میں کسی نے بنوا کر نہیں دکھایا۔
اس سے پہلے پاکستان کا سب سے بڑا قومی جھنڈا بنا کر کئی کلو میٹر سینکڑوں رضاکاروں کے ذریعے لے جایا گیا تھا جس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی تھی کیک اور جھنڈے پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے تھے جس میں کچھ مقامی لوگوں نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت چندہ دیا تھا۔ اس بار شاکر آفریدی نے اپنے گاؤں نیکی خیل کے پہاڑ پر بہت بڑا قومی جھنڈا تیار کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ بلکل انوکھا ہوگا اور دور سے دکھائی دیگا پاکستان کے اندر کسی پہاڑ پر اتنا بڑا جھنڈا کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔

شاکر آفریدی کے مطابق وہ یوم آزادی کی شب خیبر مارکیٹ کے سامنے موسیقی کا پروگرام کرینگے اور رات 12 بجے آتش بازی بھی کرینگے کئی لوگوں نے پہاڑ کے اوپر اتنا بڑا قومی جھنڈا بنانے پر اعتراض کیا ہے اور معترضین کی تجویز تھی کہ اگر ان پیسوں سے وہ پودے خرید کر لوگوں کو دیتے اور ان سب سے کہتے کہ وہ سڑک کنارے ایک ایک پودا کاشت کریں تو اس سے کلین اینڈ گرین پاکستان کا خواب پورا ہوتا جس کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب ہوتے اور علاقہ سر سبز و شاداب دکھائی دیتا۔ اگست کے پہلے ہی ہفتے میں لنڈی کوتل کے شینواری خوگہ خیل قبیلے نے اپنے گرفتار 4 افراد کی رہائی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں مقررین نے این ایل سی کے ساتھ معاہدوں اور قومی زمین کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے کو آگے بڑھانے کی باتیں بھی کیں جلسے کے دوران کچھ مخالف عناصر نے اپنے رشتہ داروں پر مقررین کی جانب سے تنقید پر برا مانا اور اس طرح شرکاء جلسہ نے ان پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی اس موقع پر لوگوں نے تنقید کی کہ پولیس کے اہلکار سیکیورٹی دینے کے لئے موجود کیوں نہیں تھے بحر حال جلسہ پرامن طور پر منتشر ہوا لیکن اگلے روز خوگہ خیل کے ذیلی قبیلے فاطمی خیل کے سینکڑوں افراد نے مولانا عتیق شینواری کے بنائے گئے گھر پر لشکر کشی کرتے ہوئے اس کو مسمار کر دیا اور ان کا موقف تھا کہ مولانا عتیق شینواری نے قوم کی مشترکہ زمین پر گھر بنایا تھا اس لئے مسمار کر دیا۔ حالانکہ کئی بار ان سے جرگے کئے گئے کہ وہ مشترکہ زمین پر بنائے گئے گھر سے دستبردار ہو جائیں جبکہ مولانا عتیق شینواری کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت تھا اور عدالت کے حکم پر انہوں نے گھر مقامی پولیس کے حوالے کر دیا تھا اس لئے گھر مسماری کا الزام چند افراد سے زیادہ پولیس پر عائد ہوتا ہے جن کی موجودگی میں ان کا گھر مسمار ہوا اس معاملے میں پولیس نے بعدازاں کارروائی کرتے ہوئے 8 افراد گرفتار کر لئے اسی ہفتے لنڈی کوتل کے اشخیل قبیلے کے مکین اور سماجی کارکن بنارس شینواری پر نامعلوم افراد نے ان کے حجرے کے اندر فائرنگ کر دی جس سے ان کا ایک ہاتھ شدید زخمی ہوا بنارس شینواری کو بہتر علاج کی غرض سے پشاور کے ایل آر ایچ پہنچا دیا گیا جہاں ان کے ہاتھ کا فوری کامیاب آپریشن کرایا گیا اور اب وہ روبہ صحت ہو رہے ہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر مقامی لوگوں نے ان کی صحت یابی کے لئے دعائیں کی اور واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا مقامی لوگوں نے بنارس شینواری پر قاتلانہ حملے کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا اور حکومت سے لنڈی کوتل کی پرامن فضاء برقرار رکھنے اور سیکیورٹی کے انتظامات بہتر بنانے کے مطالبات کئے لنڈی کوتل کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں انسداد کورونا کی ویکسین مفت لگوائی جاتی ہیں تاہم سٹاف کی کمی اور لوگوں کے جم غفیر نے پریشان کن ماحول بنا دیا ہے اور صبح سے شام تک مرد و خواتین کی لمبی قطاریں گزشتہ ہفتے دیکھنے کو ملیں لوگوں کے مطالبے پر ہسپتال انتظامیہ نے خواتین کے لئے جمعہ اور ہفتہ کے ایام مقرر کئے اور باقی ایام مردوں کے لئے مخصوص کر دئے اب امید کی جا سکتی ہے کہ وہاں رش کچھ کم پڑ جائیگا بنارس شینواری پر قاتلانہ حملے کے بعد جب ان کو پشاور منتقل کر دیا گیا تو سوشل میڈیا پر لوگوں نے کمنٹس کرتے ہوئے لنڈی کوتل ہسپتال کا نام تبدیل کرکے “ریفر ٹو پشاور” رکھنے کی تجویز پیش کی سوشل میڈیا صارفین کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لنڈی کوتل میں علاج معالجے کی سہولیات برائے نام ہیں جہاں صرف زکام  بخار اور کھانسی کا علاج ہوتا ہے باقی کچھ نہیں لنڈی کوتل ایک پرامن تحصیل ہے اور اس کے باسی امن پسندی اور مہمان نوازی کے لئے کافی مشہور ہیں لیکن یہاں کے لوگ تمام تر بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں اگرچہ سیاسی لحاظ سے لنڈی کوتل کے لوگ بہت بیدار ہیں تاہم جب احتجاج ہو تو بہت کم لوگ اس میں شریک دکھائی دیتے ہیں اور لوگ سارا بھڑاس فیس بک میں نکالتے ہیں الحاج کارواں کے مشر الحاج شاہ جی گل آفریدی نے اپنی نئی پارٹی کی داغ بیل ڈالی ہے جس کا نام تحریک اصلاحات پاکستان رکھا گیا ہے۔
شاہ جی گل آفریدی 14 اگست کو اپنی پارٹی کا باقاعدہ اعلان ایک جلسے میں کرینگے اور ان کا مشن ہے کہ چونکہ پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اصلاحات میں ناکام ہوچکی ہیں اس لئے اب ان کی پارٹی یہ کام کرکے دکھائیگی۔

About Author

Leave A Reply