اسلام آباد(ای این این ایس) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ایف بی آرکو بھیجنےکے حوالے سے پی ایف یو جے نے بھی سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی ہے۔ نظرثانی درخواست میں چیئرمین ایف بی آر کو عہدے سے ہٹانے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، استدعا کی گئی ہے کہ ایف بی آر کو معاملہ بھیجنے کے مختصر حکمنامے پر نظر ثانی کی جائے۔
پی ایف یو جے نےبھی سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی، نظرثانی درخواست پی ایف یو جے کے سیکریٹری اور مزاحمتی صحافت کے علمبردار ناصر زیدی نے سینیئر قانوندان ایڈوکیٹ رشید اے رضوی کے توسط سے دائر کی ہے، جس میں چیئرمین ایف بی آر کو عہدے سے ہٹانے پر بھی سوالات اٹھا ئے گئے ہیں۔
درخواست گزار کے مطابق آزاد معاشرے کیلئے آزاد صحافت اور آزاد عدلیہ لازم ملزوم ہیں، عدلیہ آزاد نہ ہو تو آزاد صحافت کی ضمانت نہیں مل سکتی۔درخواست گزاروں کوایف بی آر ایشو پر رائے دینےکاموقع نہیں دیاگیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیاایف بی آرمیں تبدیلیاں نظر آنے والے اور نظر نہ آنے والے حلقوں کی عدلیہ کو محکوم بنانے کی منظم کوشش ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنا شفاف ٹرائل، مساوی برتاؤ کے خلاف ہے، عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایف بی آر کو معاملہ بھیجنے کے مختصر حکمنامے پر نظر ثانی کی جائے۔ درخواست میں صدر پاکستان، وفاق، سپریم جوڈیشل کونسل اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔
پی ایف یو جے نے جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کے فیصلے کے پیراگراف 3 سے 11 کو چیلنچ کیا ہے، درخواست میں کہا گیا ہے کہ پیرا 3 اور 11 میں ایف بی آر کو جو احکامات دیے گئے وہ دوران سماعت زیر بحث نہیں آئے۔سپریم جوڈیشل کونسل کو ازخود نوٹس لینے کا حکم نہیں دیا جا سکتا اور سپریم جوڈیشل کونسل کسی جج کے اہل خانہ کا ٹرائل کیسے کر سکتی ہے؟ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کو ٹیکس آرڈیننس 2001 کے قواعد کے خلاف 3 سال سے زائد پرانے ماضی کے کسی معاملے کی تحقیقات کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟ سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس سوموٹو کا اختیار نہیں ہے۔
پی ایف یو جے کے وائس پریزیڈنٹ لالا اسد پٹھان نے ای این این ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد میڈیا کے لیے آزاد عدلیہ ضروری ہے، اس لیے پی ایف یو جے اس کیس میں پارٹی بنی ہے اور ناصر زیدی اس میں براہ راست درخواست گذار ہیں۔