نوشہروفیروز (ای این این) سندھ کے وسطی ضلع کی تحصیل مورو میں اس وقت پرتشدد کارروائیاں شروع ہوئیں جب ایک قومپرست جماعت نے کارپوریٹ فارمنگ اور کئنالز منصوبے کے احتجاج شروع کیا۔
پولیس اور مظاہرین کے درمیان شروع ہونے والے تشدد میں10 سے زائد افراد شدید زخمی ہو گئے جس میں ایک سیاسی کارکن زاہد لغاری موقع پر ہی جانبحق ہوگیا۔ جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت 10 سے زائد افراد گھائل ہوئے۔
بعد ازاں فائرنگ کا ایک زخمی عرفان بھی دم توڑ گیا، جبکہ سندھ ہے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار کے مورو باء پاس پر قائم ہاؤس کو بھی آگ لگا دی گئی۔
دوسری جانب سندھ پولیس نے حیدرآباد ہسپتال عرفان لغاری کی نعش تحویل میں لے لی اور نعش کو بھاری نفری کے ہمراہ مورو منتقل کردیا۔ اس دوران لواحقین نے لاش لینے سے انکار کردیا۔
ہولیس نے دو دن کے بعد سیشن جج نوشہروفیروز ندیم بدر قاضی کے ایک متنازعہ حکم کے تحت مقتول عرفان کی نعش دفنا دی۔ جس پر شدید تنقید شروع ہو گئی اور ایک دن بعد سیشن جج نے دوسرا حکم جاری کیا کہ عرفان کی لاش نکال کر ورثاء کے حوالے کی جائے اور ایس ایس پی نوشہروفیروز کو اظہار وجوہ کا نوٹس بھی جاری ہوا کہ آپ نے غلط تشریح کی۔ تاہم عرفان لغاری کی قبرکشائی ہوئی اور نعش ورثاء کے حوالے کی گئی جو دوسرے دن دفنا دی گئی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔
حکومت اور پولیس کے مطابق پرتشدد احتجاج کے پیشی بیرونی ہاتھ ملوث ہیں، اور کالعدم تنظیم کے کارکنان نے جان بوجھ کر امن امان کی صورتحال پیدا کی۔ ایک ظرف لواحقین اور سول سوسائٹی عدالتی کمیشن کا مطالبا کر رہی ہے تو دوسری جانب آئی جی سندھ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی جس کی سربراہی ڈی آئی جی عرفان بلوچ کر رہے ہیں۔
درین اثنا وزیر داخلہ سندھ نے کہا ہے کہ اگر عرفان کے ورثاء عدالتی کمیشن کا کہینگے تو وہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ سیاسی جماعت کا الزام ہے کہ ان کے 25 سے زائد کارکنوں کو گم کردیا گیا ہے اور انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جارہا۔