حیدرآباد (ای این این) سابق وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی کے بڑے صاحبزادے، سابق وفاقی وزیر، این پی پی کے سربراہ اور جی ڈی اے کی مرکزی رہنما کو بالآخر حیدرآباد کے نارا جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔
تحریک براء بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) 1983 کے دوران مرتضیٰ جتوئی پر شوٹ ایز سائیٹ کا حکم دیا گیا تھا، ملک میں مارشل لاء کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکا، وہ بڑے عرصہ تک روپوش رہے۔ اس وقت ان کے والد، چچا و سسر مجتبیٰ خان جتوئی سمیت کئی رہنما و کارکنان جیلوں میں بند تھے۔ سول نافرمانی کی تحریک کے تحت لوگوں نے جیل بھرو تحریک شروع کر رکھی تھی جس میں سیاسی رہنما و کارکنان گرفتاریاں دیتے تھے۔
نوین جتوئی
مرتضیٰ جتوئی کو یے اعزاز بھی حاصل ہے کہ جہاں پر پیر پگارا اور غلام مصطفیٰ جتوئی سمیت کئی مشہور ہستیاں پی پی امیدواروں سے شکست کھا گئی لیکن مرتضیٰ جتوئی 1988 سے لیکر 2013 کے عام انتخابات میں ناقابل شکست رہے۔
پاکستان میں انتخابات شروع سے ہی متنازعہ رہے ہیں اور 2024 میں جب مرتضیٰ جتوئی سمیت جی ڈی اے اہم رہنما انتخابات ہار گئے یا ہرا دیے گئے تب سے مرتضیٰ جتوئی سیاست سے کنارہ کش تھے۔ 2024 کے انتخابات کے دوران ان پر اور ان کے بیٹے بلال خان پر قتل کا مقدمہ درج ہوا جس میں انتخابات کے دن پی پی کارکن بلاول زرداری گولی لگنے سے جانبحق ہوگیا۔
انسداد دہشتگردی عدالت نوشہروفیروز کے انچاج جج محبوب عالی جواہری نے مرتضیٰ جتوئی کو ضمانت دی بعد ازاں ایک حاضری پر غیر حاضر رہنے اور وکیل کی کمزوری کی وجہ سے عدالت نے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے اور اس دوران مرتضیٰ جتوئی ایک اور مقدمہ جو کہ ان کے خلاف محبت دیرو تھانہ پر درج ہوا، میں ضمانت کروانے نوشہروفیروز کی عدالت پہنچے جہاں پر انکو ضمانت تو مل گئی لیکن نوشہروفیروز کی بھاری نفری نے عدالت کے دروازے انہیں ایک وکیل کی گاڑی سمیت اٹھا لیا اور نواب شاہ منتقل کردیا۔
اس کے انہیں نوشہرو فیروز جیل منتقل کیا گیا تاہم رات کے وقت انہیں آئی جی جیل خانہ جات کے حکم پر نارا جیل منتقل کردیا گیا۔
اس کے بعد مرتضیٰ جتوئی کے خلاف یکہ بعد دیگرے مقدمات درج ہوتے رہے جس میں باڈہ، ڈوکری، ہنگورجہ، باگڑجی اور امینانی تھانوں پر مقدمات میں نام کھولا گیا اور نیا مقدمہ بھی درج ہوا۔ اسی دوران مرتضیٰ جتوئی پر اینٹی کرپشن پولیس نوشہرو فیروز نے بھی مقدمہ درج کر لیا تاہم وہ مقدمہ عدالت نے خارج کر دیا۔
مرتضیٰ جتوئی کی بیوی اور سابق صوبائی وزیر عاقب خان کی بہن نوین جتوئی اس دوران سخت موقف کے ساتھ میدان میں اتری اور میڈیا پر پی پی حکومت پر سیاسی انتقامی کارروائیوں کے الزامات لگائے اور ساتھ ہی سخت احتجاج کا اعلان بھی کردیا۔
یہاں پر یے بات بھی ذہم ہے کہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس جس کا این پی پی اہم حصہ ہے، نے سواء بیانات اور اجلاسوں کے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا۔ سوشل میڈیا پر پی پی سرکار سمیت جی ڈی اے پر کڑی تنقید کی جاتی رہی۔
بالآخر سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ بنچ کے احکامات کی روشنی میں مرتضیٰ جتوئی کو رہائی نصیب ہوئی اور جب وہ نارا جیل حیدرآباد سے اپنے آبائی علاقے نیو جتوئی کے لیے نکلے تو مختلف شہروں میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔
صوبائی وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار کے حلقہ مورو میں لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوئی اور مرتضیٰ جتوئی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی اور نعریبازی کی گئی۔
مرتضیٰ خان جتوئی نے میڈیا اور استقبالیہ اجتماعات سے خطاب میں کہا کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو چکے تھے لیکن زرداری صاحب نے سیاست کا کمبل ان پر پھینک دیا لہاذا اب پی پی کا سیاسی میدان میں بھرپور مقابلہ ہوگا۔
یہاں یے بات بھی اہم ہے کہ مرتضیٰ جتوئی کے 35 سالہ سیاسی کیریئر میں پہلی بار ہوا کہ انکو ہتھکڑیاں لگا کر بکتربند گاڑی میں عدالت میں پیش کیا گیا، جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انکی ہتھکڑیاں کھلوا دیں۔
دوسری جانب انکی اہلیہ نوین جتوئی مسلسل سیاسی انتقام کا الزام زرداری، فریال تالپور اور وزیر داخلہ پر لگاتی رہی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پی پی حکومت کی انتقامی کارروائیوں نے جتوئی خاندان کی سیاست کو ایک بار پھر زندہ کردیا ہے اور اب دیکھنا یے ہے کہ آئندہ انتخابات میں جتوئی فیملی اپنی سیٹیں واپس لینے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟