اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قبائلی مشران و ملکان ، علماء، سیاسی قائدین، سماجی کارکنوں،سیکیورٹی فورسز کے آفیسرز و جوانوں اور عام لوگوں کی طرح قبائلی صحافی بھی وار آن ٹیرر کے دوران گزشتہ تئیس سالوں میں بے پناہ مشکلات اور مصائب سے گزر چکے ہیں تقریباً 18 کے لگ بھگ قبائلی صحافی اب تک دہشت گردی کی اس پرائی جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں خلیل جبران آفریدی 18 جون 2024 کو مزرینہ سلطان خیل خیبر میں بے دردی سے شہید کئے گئے ان کو 19 گولیاں ماری گئی تھیں اسی طرح دہشتگردی کی اس جنگ میں درجنوں صحافی زخمی ہو چکے ہیں کچھ واقعتاً ایسے صحافی بھی ہیں جن کو قبائلی علاقوں سے نکالا گیا یا وہ فی الحال بھی انتہاء پسندوں کے لئے مطلوبہ ٹارگٹ کی لیسٹ پر ہیں جن میں لنڈیکوتل سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان اور کئی میڈیا اداروں کے ساتھ کام کرنے والا صحافی بھی ہیں جو دہشت گردوں کی طرف سے سنگین دھمکیاں ملنے کے بعد آبائی وطن چھوڑ چکے ہیں
تمام قبائلی علاقے اس وقت بھی شدید بدامنی کی لپیٹ میں ہیں ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول ہے ایسے حالات میں میڈیا کے لئے کام کرنا، مستند اور مصدقہ خبریں ڈھونڈنا اور آگے چلا کر شئیر کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہیں اس ساری صورتحال کو مختصراً بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ واقعتاً قبائلی صحافی قابل رحم ہیں ان کی قربانیوں، خبروں اور بدترین حالات کو کئی لوگوں نے ذاتی مفادات کے لئے کیش بھی کیا ہے جن کا دہشتگردی کے شکار قبائلی علاقوں سے کوئی تعلق نہیں سوشل میڈیا کا انقلاب آنے کے بعد بڑی حد تک وہ غلامی اور محتاجی کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں چونکہ صحافی اور قلم کار معاشرے کے دیگر طبقات کے مقابلے میں بلحاظ تعداد کم ہوتے ہیں لیکن دنیا مانتی ہے کہ صحافی اور قلم کار دراصل معاشرے کے ترجمان ہوتے ہیں صحافی معاشرے کے باقی طبقات کے مقابلے میں حالات اور واقعات سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں اور یہ ان کا کام بھی ہے کہ وہ تحقیقات اور درست معلومات کے ذریعے اصل صورتحال سے آگاہ رہیں معاشرے کے تمام افراد اور تنظیموں کے ذمہ داران بھی میڈیا کے نمائندوں پر اعتماد کرکے واقعات کی اصل نوعیت بتا دیتے ہیں اور پھر قلم کے یہ بے تنخواہ مزدور معاشرے کی تصویر کشی کرکے دنیا کو آگاہ رکھتے ہیں قبائل یونین آف جرنلسٹس(کیو یو جے) کے صدر آوردین محسود اگرچہ خود بیمار ہیں لیکن قبائلی صحافیوں کے درد اور بدترین حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آوردین محسود نے راقم کے مشورے پر کیو یو جے کے نام سے تنظیم بنائی، اس کو منظم کیا اور باجوڑ سے لیکر وزیرستان تک معقول تعداد میں باصلاحیت صحافیوں اور رائٹرز کو رکنیت دی 26 فروری کو کیو یو جے کے ساتھی وفد کی صورت میں صدر آوردین محسود کی سرپرستی میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی سے ملنے گورنر ہاؤس پشاور پہنچے تاہم طے شدہ وقت کے مطابق گورنر ملاقات کے لئے نہیں آئے آوردین محسود کے مطابق دو ڈھائی گھنٹے انتظار کے بعد قبائلی صحافیوں نے مشاورت سے واک آوٹ کیا اور گورنر ہاؤس پشاور سے احتجاجاً باہر نکل آئے سینئر صحافی آوردین محسود نے صوبے کے آئینی سربراہ گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کا صحافیوں کے ساتھ اس روئے اور سلوک پر شدید برہمی اور افسوس کا اظہار کیا تاہم یکم فروری کو (کیو یو جے) کے صدر آوردین محسود نے صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی علی آمین گنڈاپور کے ساتھ ملاقات کا اہتمام کر کے قبائلی صحافیوں کے بڑے بڑے مسائل کے حل کی طرف انقلابی اور تاریخی پیشرفت کی خیبر پختون خواہ حکومت کے وزیر اعلٰی علی آمین گنڈاپور نے آوردین محسود کی قیادت میں کیو یو جے کے پچاس رکنی وفد سے ملاقات کی اس ملاقات میں وزیر اعلٰی کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف بھی موجود تھے وزیر اعلٰی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے اپنی پارٹی چئیرمین عمران خان کے ویژن کے مطابق اپنی حکومت کی ترجیحات، صوبے میں درپیش مسائل اور ان کا حل،اصلاحات، بی آر ٹی روٹس میں توسیع، فاٹا کا صوبے میں انضمام کے بعد این ایف سی ایوارڈ میں حصہ بڑھانے، تمباکو کی آمدنی پر وفاق کی اجارہ داری، صحت کارڈ، بجلی کے خالص منافع سمیت قبائلی علاقوں میں درپیش سیکیورٹی کی بدترین صورتحال پر مدلل انداز میں سیر حاصل گفتگو کی وزیر اعلٰی نے قبائلی صحافیوں پر زور دیا کہ وہ حکومت کے اچھے اور عوام دوست منصوبوں اور اقدامات کو اجاگر کریں اور حالات کو مذید بہتر بنانے کے لئے صوبائی حکومت کا ساتھ دیں کیو یو جے کے مرکزی صدر آوردین محسود نے وزیر اعلٰی کے سامنے قبائلی صحافیوں کو درپیش مشکلات کا زکر کیا، پیکا ایکٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی صحافی پیکا ایکٹ سے زیادہ خطرناک ایکٹ کا سامنے کر رہے ہیں اور وہ ہے گولی سے مارنا،خلیل جبران شہید سمیت دیگر صحافی شہداء کے ورثاء کے لئے شہید پیکیج، قبائلی اضلاع میں قائم پریس کلبوں کے لئے گرانٹس بڑھانے، صحافیوں کے تحفظ، پریس کلبوں کی رجسٹریشن میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے مطالبات کئے تو وزیر اعلٰی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے انتہائی مثبت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے قبائلی صحافیوں کے تمام جائز مطالبات تسلیم کئے اور اس بات کا اعتراف کیا کہ واقعی قبائلی صحافی مشکل صورتحال میں کام کر رہے ہیں وزیر اعلٰی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور نے کیو یو جے کو صحافتی اور تنظیمی سرگرمیاں مؤثر انداز میں جاری رکھنے کے لئے 5 ملین، خلیل جبران شہید سمیت ہر قبائلی شہید صحافی کو بھی 5 ملین، 13 پریس کلبوں کو مذید 20/20 لاکھ کے گرانٹس دینے کا اعلان کیا اور جو واقعی دہشتگردی کی جنگ میں میں نشانہ بن کر شدید زخمی ہوئے ہیں ان کو میڈیکل اور ضروری کاغذات پیش کرنے پر 10 لاکھ روپے دینے کا بھی اعلان کیا وزیر اعلٰی علی آمین گنڈاپور نے واقعی دل بڑا کرکے قبائلی صحافیوں کی بھر پور مدد کے جو اعلانات کئے یقیناً اس سے پہلے کسی حکومت نے نہیں کئے ہیں قبائلی صحافیوں نے وزیراعلٰی خیبر پختون خواہ علی امین گنڈاپور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ صوبے کے وزیر اعلٰی نے قبائلی صحافیوں کی مشکلات کو بھانپتے ہوئے ان کی بھر پور حوصلہ افزائی کی۔