یوم اقلیت اور اقلیتیں! ولیم پرویز - Eye News Network

یوم اقلیت اور اقلیتیں! ولیم پرویز

0

سال 2009 میں 11 اگست کو یوم اقلیت قرار دیا گیا، تب سے پاکستان کی تمام اقلیتیں اسے ’’یوم اقلیت ‘‘ کے طور پر مناتی ہیں، جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اقلیتی مشاہیر کے کارنامے او ر ملک کیلئے انکی خدمات کو یاد کیا جا تا ہے ۔ آج کے دن آپ کو بہت سارے اقلیتی مشاہیر کے نام پڑھنے اور سننے کو ملیں گے جو کئی بار پڑھنے اور سننے کے باوجود اقلیت بھول جاتی ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر انکی خدمات کو اس طرح سراہا اور انکا پرچار نہیں کیا گیا، جیسے کرنا چاہیے تھا۔ شہید میجر راجہ عزیز بھٹی، کیپٹن محمد سرور ، پائیلٹ آفیسر راشد منہاس اور دیگر شہدا کو بجا طور پر ہم بچپن سے جانتے ہیں، کیونکہ انکی شہادتوں کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی، انہیں نصاب کا حصہ بنایا گیا اور ایسا خراج عقیدت پیش کیا گیا جس کے یہ مستحق ہیں، لیکن کتنے پاکستانی ہیں جنہیں اقلیتوں کے پانچ بڑے نامور شہدا کا نام یاد ہو ں؟ کیونکہ ان شہدا ٔ کی قربانیوں کو قومی سطح پر ایسے تمام استحقاق سے محروم رکھا گیا ہے۔
میرے بہت اچھے دوست ہیں سرور باری صاحب، جو میرے استاد بھی ہیں۔ انہوں نے ایک بار مجھ سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ ستانوے فیصد اکثریت، تین فیصد اقلیت سے خوفزدہ ہے ، اسکی فِلوسافیکل کیا وجہ ہو سکتی ہے؟سوال اچانک تھا او ر میں نے اس پر کبھی غور بھی نہیں کیا تھا، اس لئے فوری طور پر میرے لئے جواب دینا بہت مشکل ہوا اور یقین کریں آج بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ایسا کیوں ہے، کیا ایک بڑی اکثریت کو چھوٹی سی اقلیت سے نفسیاتی مسئلہ ہے، یا کیا ہے؟ یعنی ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ اتنی کم تعداد کی اقلیت جو اپنا ایم این اے بھی منتخب نہیں کر سکتی، وہ صدر اور وزیر اعظم کے منصب پر کیسے پہنچ سکتی ہے، اس کے باوجود ان دونوں عہدوں تک رسائی میں، اقلیتوں کیلئے رکاوٹیں پیدا کر دی گئی ہیں، جوکہ آئین کی شق 25 کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ اتنی چھوٹی سے اقلیت سے اکثریت سے خوف زدہ کیوں ہے اور پاکستان ہی نہیں، تقریباً دنیا کے ہر ملک میں ایسا ہی ہے۔ اگر دوست اس پر پر مغز بحث کریں تو بڑی نواز ش ہوگی۔
گوکہ پاکستان میں معاشی اور سماجی مسئلے اقلیتوں کیلئے ویسے ہی ہیں ، جیسے اکثریت کو بھی در پیش ہیں ۔ میرے نزدیک اقلیت ہونے کے حوالے سے ان میں تھوڑا بہت ہی فرق ہوگا، لیکن ایک فرق بہت بڑا سوالیہ نشان ہے جس کے ذریعے آئین پاکستان کی شق 27 کی سنگین خلاف ورزی کی جارہی ہے، آئین کی یہ شق کہتی ہے کہ ’’ کسی شہری کیساتھ جو بہ اعتبار دیگر پاکستان میں ملازمت کا اہل ہو، کسی ایسے تقرر کے سلسلے میں محض نسل، مذہب ،ذات ، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز روا نہیں رکھا جائیگا‘‘ ۔ لیکن یہاں ملازمتوں کے سرکاری اشتہارات میں خاکروب کی پوزیشن کیلئے بریکٹ میں (صرف اقلیت کیلئے )کے الفاظ لکھے جاتے ہیں، یہ اقلیتوں کی ہی نہیں انسانیت کی بھی تضحیک ہے کہ آپ کسی خاص طبقہ کی سماجی حیثیت مقرر کردیں۔
سیاسی اعتبار سے اقلیتوں کیساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس وقت وہ سب سے زیادہ زیر بحث او ر تکلیف دہ ہے۔ اقلیتوں کی نمائندگی کا جو طریقہ کار اس وقت رائج ہے ، اس سے یہ سمجھنا کہ اس سے اقلیتوں کی نمائندگی کا مقصد پورا ہورہا ہے، بالکل غلط ہے۔ اقلیتی نمائندوں کا مروجہ نظام خالصتا ً سیلیکٹڈ طریقہ کار کے تحت ہے۔جن آٹھ دس اقلیتی نمائندوں کی فہرستیں سیاسی جماعتیں، انتخابات کے دوران، الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتی ہیں، وہ سیاسی جماعتوں کے خدمت گار اور چہیتے تو ہوسکتے ہیں، اقلیتی نمائندے ہرگز نہیں۔ اس طریقہ کار نے اقلیتوں میں مایوسی اور انتخابی نظام سے لاتعلقی پیدا کی ہے ۔ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ اکثریتی نمائندہ جس کی جیت میں اقلیت کے ووٹ بھی شامل ہوتے ہیں ، نے کبھی اپنے آپ کو اقلیتی نمائندہ بھی سمجھا ہو ، حالانکہ پاکستان میں بہت سارے ایسے حلقے ہیں جہاں اقلیتی ووٹرز ہار جیت میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ، لیکن وہاں سے جیتنے والا امیدوار اپنے آپ کو اکثریت کا نمائندہ ہی سمجھتا ہے ، وہ اقلیتوں سے ووٹ لیتا ہے، لیکن انکی قدر اور نمائندگی نہیں کرتا۔
اقلیتی نمائندو ں اور کمیونٹی میں ورکنگ ریلیشن شپ گیپ ہے۔ میں نے بہت کم اقلیتی نمائندے کا محلے یا ضلع کی سطح پر دفتر دیکھا ہے ۔ بس اسے پارلیمینٹیرین بلاک میں ایک فلیٹ مل جاتا ہے اور لش پش بھی، بس اس کیلئے کافی ہے ۔ نہ اس نے عوام سے ووٹ لئے اور نہ لینے ہیں ، اس لئے وہ عوام کو جواب دہ بھی نہیں سمجھتا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس کا نقصان خود اقلیتی نمائندوں کو زیادہ ہے، کیونکہ عوامی ووٹ سے نہ آنے کی وجہ سے انکی سیاسی پوزیشن بہت کمزور رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انکی اپنی جماعتوں اور قومی اسمبلی میں حیثیث بہت کمزور دکھائی دیتی ہے۔ پھر اس کا بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اقلیتی نمائندوں میں اتحاد نہیں پیدا ہوتا ، کیونکہ ہر ایک اپنی پارٹی کا مرہون منت او ر تابعدار ہے اور اجتماعی سطح پر کسی بھی اقلیتی مسئلہ کو اٹھانے سے قاصر ہے ۔
اب سوال یہ کہ کیا کیا جائے ؟
اس وقت اقلیتوں میں دوہرے ووٹ کی مہم اور نعرہ زوروشور سے جاری ہے ۔ بہت سی تنظیمیں اور اقلیتی سیاسی جماعتیں اس پر بہت جاندار آواز اٹھارہی ہیں، لیکن دوہر ے ووٹ کا حق آئینی طور پر کیسے ممکن ہے ،اس پر کوئی بہت مدلل بحث سامنے نہیں آرہی ہے ۔ دوہرے ووٹ کے حق کا نعرہ لگانے والوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ اسکی بنیاد کیا ہے اور اسکے نمائندوں کی حلقہ بندی کیسے ہوگی ، ووٹر وں کیلئے ووٹ ڈالنے کا کیا طریقہ کار ہوگا، کون یہ حق دےگا او ر کیسے ؟ اس پر بہت تفصیل سے کوئی بحث یا طریقہ کار سامنے نہیں آرہا ۔ دوہرے ووٹ کا حق مانگنے والوں کا جو بھی موقف ہو ، لیکن میرے نزدیک یہ اتنا آسان نہیں ہے اور اس میں بے شمار پیچیدگیاں ہیں جن سے نہ صرف قوم کا وقت ضائع ہوگا ، بلکہ اقلیتی نمائندگی کے موجودہ نظام کو بھی طوالت ملے گی ۔
پتن تنظیم جو کہ خالصتاً الیکشن کے حوالے سے ۲۰۰۲ سے عملی میدان میں ہے ، نے ایک طریقہ کار کی تجویز دی ہے جو بڑی حد تک نہ صرف دوہر ے ووٹ کا مقصد پورا کرتی ہے ، بلکہ اقلیتی نمائندگی کے موجودہ نظام سے چھٹکارے کا بھی حل فراہم کرتی ہے ۔
پتن کی ۲۰۱۵ کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں اس وقت قومی اسمبلی کے تیس ایسے حلقے موجود ہیں جہاں اقلیتی ووٹر زکی اتنی معقول تعداد موجود ہے جو امیدوار کی ہار اور جیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔ مثلا ً قومی اسمبلی کے تین حلقے ایسے ہیں جہاں اقلیتی ووٹ ایک لاکھ سے زیادہ ہے ، آٹھ حلقے ایسے ہیں جہاں پچاس ہزار کے قریب اور بارہ حلقوں میں پچس ہزار کے قریب ووٹر ز ہیں ۔ یہ وہ حلقے ہیں جہاں اقلیتی ووٹ انتخابی نتائج میں اہم کردار ادا کر تاہے ۔
تجویز ہے کہ ان میں اقلیتی اکثریت کے بیس حلقوں کو ’’کثیر رکنی حلقے (Multiple Members Constituencies‘‘ قرار دیا جائے ، جہاں اقلیت اور اکثریت دونوں کے نمائندے انتخابی عمل میں حصہ لیں ۔ ان حلقوں میں ہر ووٹر کو دد بیلٹ پیپرز دیئے جائیں ،جو اپنی پسند کے دونوں امیدواروں کو ووٹ ڈالے ۔ یادر ہے کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے ، بلکہ بلدیاتی انتخابات میں اسی طریقہ سے ایک ووٹر، مختلف کیٹیگری کے چھ امیدواروں کو وو ٹ ڈالتا ہے ۔
اس طریقہ کار سے اقلیتوں میں انتخابی عمل میں عملی طور پر حصہ لینے کا موقع ملے گا اور اکثریت اور اقلیت میں ہم آہنگی بھی بڑھے گی ، کیونکہ اکثریت اور اقلیت کے امیدواو تمام ووٹرز کے پاس ووٹ کیلئے جائیں گے ، جس سے بعد ازاں جوابدہی اور کارکردگی کے عمل کو بھی تقویت ملے گی۔ ان حلقوں کا 33 فیصد خواتین کیلئے مختص کیا جا ئے۔

About Author

Leave A Reply