وانا(مجیب وزیر سے/ای این این) قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان وانا میں پولیس پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے، پولیس فورس اور تھانوں کی موجودگی کے باوجود قتل وغارت، ڈاکہ زنی اور غیرقانونی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے نے پولیس سربراہ ساؤتھ وزیرستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ دئے ہیں۔
گذشتہ روز تحصیل برمل اعظم ورسک میں علاقہ مکین بشمول سیاسی افراد نے امن عامہ کی مخدوش صورتحال کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی پولیس کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا۔
مظاہرے سےمقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا،کہ پولیس تھانوں کی موجودگی میں ڈاکو اور چور کھلے عام ڈاکے ڈالتے ہیں، اورڈکیت، چور باحفاظت فرار ہوجاتے ہیں، دفعہ 144 کے باوجود بازاروں میں چوری اور ڈکیتی کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بغیر نمبر پلیٹ کالے شیشے والی گاڑیوں کی بھرمار اور غیر قانونی اسلحہ کی نمائش بھی زور وشور سےجاری ہیں، لیکن بدقسمتی سے ڈی پی او ساوٴتھ وزیرستان خانزیب خان مہمند اس مخدوش صورتحال کے باوجود 120 کلومیٹر دورضلع ٹانک سےجنوبی وزیرستان کوکنٹرول کر رہے ہیں، جوکہ انتہائی افسوسناک ہے، مظاہرین کا کہنا تھا ،کہ سب ڈویژن کی پولیس غیرقانونی مصالحتی جرگے تشکیل دے کر ان کے عوض کمیشن لے رہی ہے، نام نہاد افراد کو مصالحتی جرگوں میں ثالثان مقرر کرتے ہیں، جو کہ علاقائی مفادات کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئےملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
وانا پریس کلب میں نعمت اللہ جو کہ گزشتہ دن نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے اور جن کو پشاور منتقل کردیا گیا تھا کے رشتہ دارنے وانا پریس کلب میں بتایا،کہ پولیس نے ایف آئی آر کٹوانے کے بدلے 50 ہزار روپے کا مطالبہ کیا،جو کہ اعلیٰ افسر کی مداخلت پر پچاس ہزار تو نہیں دے سکے،لیکن 2 ہزار روپے ایف آئی آر کے کٹوانے کے پولیس والوں نے لے لئے، ان کا کہنا تھا،کہ ہمارا زخمی ایل آر ایچ میں علاج کیلئے پڑا تھا، ڈاکٹروں نے ایف آئی آر کی کاپی کا مطالبہ کیا،جس کیلئے پولیس والوں نے رقم کا مطالبا کیا،انہوں نے کہا،کہ ہم غریب لوگ ہیں،جو پولیس والے عوام کی خدمت پہ مامور ہے، وہ ہمیں اگر اس طرح لوٹیں گے، تو ہم فریاد لیکر کہاں جائیں؟