کراچی (ای این این ایس) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام محکموں خصوصاً بلدیاتی اداروں ، اتھارٹیز اور مختلف بورڈز اور دیگر نیم سرکاری تنظیموں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی پنشن کے معاملات حل کریں اور انہیں اس حوالے سے رپورٹ پیش کریں۔ یہ فیصلہ انہوں نے منگل کے روز نیو سندھ سیکرٹریٹ میں کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں تمام صوبائی وزراء ، سینئر مشیر ، چیف سیکرٹری سندھ ممتاز علی شاہ، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم اور متعلقہ سیکرٹریز نے شرکت کی۔ اجلاس کے آغاز پر وزیر اعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ بلدیاتی ملازمین کے پنشن کے معاملات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ملازم جو اپنی ملازمت سے سبکدوشی ہوتا ہے اسے لازمی طور پر اس کی پنشن اور واجبات دیئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی ادارے جیسے کے ایم سی، ڈی ایم سی، سکھر میونسپل کارپوریشن اور اس طرح کے دیگر ادارے پنشن کی ادائیگی کے حوالے سے میکنیزم بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ ملازمین اپنے جائز حق کے لئے ادھر اُدھر بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہ غیر منصفانہ رویہ ہے اور اس پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔ مراد علی شاہ نے چیف سکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ ذاتی طور پر پینشن کے مسئلے کو حل کرائیں تاکہ پینشن اور دیگر واجبات کی ادائیگی ایک ہی دفعہ میں ممکن ہوسکے۔
اساتذہ کی منتقلی کی پالیسی: محکمہ تعلیم نے اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ٹیچنگ عملے کے ٹرانسفر پالیسی پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی سال کے دوران اساتذہ کے تسلسل یقینی کو بنانا اور بار بار تبادلہ اور پوسٹنگ پر پابندی لگانا، خاص طور پر دور دراز دیہی علاقوں سے اساتذہ کی شہری علاقوں میں منتقلی پر 5 نومبر 2018 سے پابندی نافذ کردی گئی تھی۔ ایک بار پھراگست 2019 میں تمام تدریسی عملے کے تبادلوں پر مکمل پابندی کی منظوری دی گئی۔ دو سال سے زیادہ عرصہ تک منتقلی اور پوسٹنگ پر مکمل پابندی نے بھی رکاوٹیں کھڑی کردی تھیں، اسکولوں کے مستقل اور عارضی طورپر بند ہوجانے سے، اساتذہ کی ریٹائرمنٹ یا معیاد ختم ہوجانے سے اسکولوں میں اساتذہ کی کمی طلباء کے لیے بدترین صورتحال پیدا کردیتی ہے اورجس سے ظلباء اور اساتذہ کا تناسب (30:1) ہوجاتا ہے۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ منتقلی کی درخواستوں پر مکمل پابندی کی وجہ سے خواتین اساتذہ کی جانب سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں کہ شادی کی یا شوہر کے انتقال یا پھر بیمار اساتذہ کو اس پر عمل کرنے سے بڑی دقت پیش آتی ہے۔
وزیر تعلیم سعید غنی اور سکریٹری اسکول ایجوکیشن احمد بخش ناریجو نے ڈرافٹ ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ پالیسی پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ تمام قابل عمل اسکولوں کو کھولنا ، پرائمری اسکولوں میں اساتذہ کی دستیابی کو یقینی بنانا، طلباء اساتذہ کا تناسب برقرار رکھنا اور سائنس اور انگریزی کے اساتذہ کی دستیابی کو یقینی بنانے کے حوالے سے محکمہ تعلیم نے ٹرانسفر پالیسی تشکیل دی ہے۔
پالیسی: اساتذہ کے عام تبادلوں کو ہر سال مارچ کے مہینے میں مطلع کیا جائے گا اور اس کا اطلاق نئے تعلیمی سال سے کیا جائے گا۔ اساتذہ کی منتقلی کی درخواستوں کو مندرجہ ذیل ٹائم لائنز کے مطابق تشکیل دیا جائے گا: ا) دلچسپی رکھنے والے اساتذہ کو جنوری کے دو ہفتوں کے دوران اپنے تبادلے کے لئے ای ٹرانسفر کی درخواستیں پیش کرنی ہو گی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) آفس کے ذریعہ تبادلہ درخواستوں کی جانچ پڑتال جنوری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے کے دوران) ای ٹرانسفر درخواستوں کی جانچ پڑتال، سوائے ان کے جہاں فروری کے پہلے ہفتے میں ڈی ای او متعلقہ ڈائریکٹر کا مجاز ہوں۔ د) فروری کے دوسرے اور تیسرے ہفتوں کے دوران ڈائریکٹر ایچ آر کے ذریعہ ای ٹرانسفر درخواست کی جانچ پڑتال کی جائے گی۔مارچ کے تیسرے ہفتے تک اسکول کے تعلیمی محکمہ کی ویب سائٹ پر سسٹم کے ذریعہ تیار کردہ احکامات کو اپ لوڈ کردیاجائےگا۔ وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ مذکورہ بالا مقررہ ٹائم لائنزکا اطلاق ایسے معاملات میں لاگو نہیں ہوں گے جیسے سنگل روم اسکول دوبارہ کھولے جائیں، شادی بیاہ کے معاملات ہوں، شریک حیات کی موت ہو اور طلاق (خواتین اساتذہ کے لئے) اور بیمار اساتذہ جنہیں دائمی بیماری سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کابینہ نے مکمل غور و خوص کے بعد اسکول اساتذہ کے تبادلہ اور پوسٹنگ پالیسی کی منظوری دے دی۔