کراچی(ای این این ایس) روزنامہ کاوش اور کے ٹی این نیوز کے محرابپور میں سابقہ رپورٹر عزیز میمن کے ’منصوبہ بند قتل‘ میں اہم مشتبہ ملزم تا حال مفرور ہے۔
صحافی عزیز میمن کی ہلاکت کے ایک سال بعد بھی اسکے “منصوبہ بند قتل” میں ملوث مبینہ ماسٹر مائنڈ تا حال مفرور ہے۔
فروری 2020 میں سول سوسائٹی اور سیاست دانوں کی جانب سے میمن کی ہلاکت کی مذمت کی گئی تھی جس کے نتیجے میں اس قتل کی تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔ میمن کی موت کے ایک سال بعد بھی اب تک مرکزی مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، اگرچہ پانچ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے۔
16 فروری 2020 کو اس صحافی کی لاش صوبہ سندھ کے ضلع نوشہرہ فیروز کے علاقے محرابپور میں ایک نہر ڈوڈو سے ملی تھی۔
میمن کی موت کے تناظر میں، وفاقی وزیر فواد چوہدری نے چیف جسٹس آف پاکستان سے صحافی کی “پراسرار موت کا نوٹس لینے” کی درخواست کی تھی۔ درایں اثناء، پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن نے بھی دوسرے صحافیوں اور اس قتل کی مذمت کی تھی۔
میمن کو “اپنے 30 سالہ طویل کیریئر کے دوران اکثرسنگین نتائج کی دھمکیاں ملتی رہی تھیں۔ “رپورٹ کے مطابق اسی طرح کا خطرہ اسے ایک ممبر قومی اسمبلی کی جانب سے تھا، جس کے بعد وہ اپنا آبائی شہر چھوڑ کر کچھ عرصے کے لئے اسلام آباد چلے گئے تھے۔ ضمنی طور پر، اپنی موت سے ایک سال قبل، صحافی نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس نے بھی ان کی رپورٹنگ پر انہیں ہراساں کیا تھا۔ میمن کی رپورٹ میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری کے ٹرین مارچ میں شرکت کے لئے لوگوں کو ادائیگی کی گئی تھی۔
میمن کی موت کے بعد میں پی پی کی صوبائی حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ اپریل میں، میمن کی ڈی این اے کی رپورٹ جاری کی گئی، جس کے مطابق، “کسی اور انسانی ڈی این اے کے آثار پائے گئے تھے۔” ایک ماہ بعد 30 مئی کو جے آئی ٹی اس حتمی نتیجے پر پہنچی ہے کہ یہ ایک “منصوبہ بند قتل” کا کیس تھا۔ تین ملزمان نذیر سہتو، امیر سہتو اور فرحان سہتو کو گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم مرکزی ملزم مشتاق سہتو اور دوسرے چار افراد جن پر اس کے ساتھی ہونے کا الزام عائد ہوتا ہے اس وقت تک مفرور تھے۔ جون میں، میمن کے قتل کے الزام میں دو اور ملزمان ظفر سہتو اور ذوالفقار سہتو پر مقدمہ قائم کیا گیا اور انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) سے گفتگو کرتے ہوئے مقتول صحافی کے بھائی حفیظ میمن نے کہا کہ ایک سال گزر گیا ہے لیکن ابھی تک اس کیس میں مرکزی مجرم نہیں مل سکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے کیس چل رہا ہے مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فروری میں حیدرآباد ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) کے ساتھ ایک میٹنگ میں انھیں آگاہ کیا گیا تھا کہ مشتبہ شخص کو اس ماہ گرفتار کرلیا جائے گا۔
دوسری جانب سندھ جرنلسٹس کونسل کی جانب سے کراچی میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جبکہ سکھر یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے منگل کو محرابپور میں تقریب ہوگی۔